عبدلروف روفی کی غزل پر وہ بات کرے تو سنا ہے پھول جھڑتے ہیں کو سن کر یا رسول اللہ کہنے والے مولوی باؤ محمد حمید مرحوم کے عشق رسول کی ایک عام مثال تھی، ہم ہنستے تھے کہ مولوی یار یہ کسی اور چکر میں گا رہا ہے، مگر مولوی اپنے چکر میں یارسول اللہ کہہ کر ہاتھ چومتا ہوا ہے، آنکھوں کو لگاتا ہوا، بس سر سے اوپر بالوں تک لے جاتا، مولوی کی محبت اپنی جگہ پر اور غزل گانے والے کی نظر اپنی جگہ پر لکھنے والے نہیں جہاں لگائی وہ تو علم نہیں کیوں کہ شاعر کا نام معلوم نہ ہوسکا، مگر ہم جہاں پر لگا رہے تھے وہ وہی تھی جہاں عموماُ ایسی غزلیں لگتی ہیں، ہماری غزل کا معشوق اور تھا اور مولوی جی کی کیفیت کہیں اور لے جارہی تھی، خیر بھلے آدمی تھے بھلی نباہ گئے اور جوانی میں ہی داغ مفارقت دے گئے،
آج جانے کیوں مجھے مولوئ جی بہت یاد آرہے، جب اس بلاگ کو لکھنے بیٹھا تو لگا کہ مولوی جی خود ہی سامنے مجسم آگئے اور کہہ رہے، یار ڈاکٹر جی سانوں بھل ہی گئے ہو، کدی یاد ہی نہیں کیتا، اب یاد تو بندہ دنیا دار جو ہے وہ دنیا والوں کو ہی کرے گا، جن سے لین ہے اور دین بھی، مگر جو ادھر سے نکل لئے انکا معاملہ اللہ کے سپرد، کبھی موقعہ ملے فرصت ہوئی تو یاد کرلیا، اور کہہ دیا اللہ مغفرت کرے۔
مولوی محمد حمید اپنے آپ کو باؤ حمید کہلوانا پسند کرتے اور میں انکو مولبی جی کہنے پر مصر، کبھی بہت لاڈ پیار ہوا تو مولانا کہ لیا یا پھر حضرت جی تو بس پھر حضرت جی اپنا ہاتھ چوم لیتے، حضرت جی اٹلی میں ہمارے اولین رفقاء میں شام رہے، پہلے سال کی سردیاں جب ایک کمرے میں 14 بندے ہوتے اور اوپر سے 3 مہمان بھی تو میں اور مولبی جی نے ایک سنگل بیڈ پر سوکر ایک رضائی میں گزار دی، انکے پاؤں میرا سر اور میرا سر انکا پاؤں۔
سدقے شالا انہاں پردیسیاں تیں گلیاں دے ککھ جہناں تیں پہارے۔
مولوی جی کوئی باقاعدہ مدرسے کے طالبعلم نہیں رہے مگر بس دین نے انکو اپنے اندر سمولیا اور وہ اسلام سے زیادہ صوفی ازم کی طرف نکل گئے، مطلب پنجگانہ نماز اور ورد وظیفہ، پیروں کی باتیں، اور ولیوں کے قصے، جو شروع ہوتے ایک بزرگ نے ایک مقام پر فرمایا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کوئی اچھی بات ہی ہوتی، مولوی جی کی تعلیم عمومی مگر لگن پکی تھی، ہم لوگ حوالہ مانگتے، مگر وہ اپنی بات پر پکے، بس جی جب لگن لگ گئی تو فیر لگ گئی، البتہ یہ قرآن اور حدیث کا حوالہ کم ہی ہوتا، مگر سادگی سے وہ اپنے رستے پر چلتے رہے، اور ہم اپنی لفنٹریوں پر، ہمارے حوالے اور دنیا داریاں اور انکے بغیر حوالے کی لگن اور سادگی، بس یہ درویشانہ عالم کہ کتنی باربحث ہوتی، زچ کرتے کہ مولوی تینوں ککھ پتا نہیں، مگر وہ ہنستے ہنستے نکل لیتے، سادیو ڈاکٹر جی تسیں نہیں سمجھو گے۔ البتہ ایک بات پکی تھی، مولوی جی میں کوئی شرعی عیب نہ تھا، باریش، یورپ میں بھی شلوار قمیض کہ بھئی مذہبی لباس ہے باوضو، نماز جہاں بھی وقت ہوگیا، پڑھ لینی نہیں تو موقع ڈھوندنا
اللہ نے ان پر اپنا فضل رکھا اور دنیا کے معاملات وقت سے پہلے ہی سمیٹ کر مرحوم ہوگئے۔ اب تو شاید دو برس ہوگئے ہونگے، اللہ انکی مغفرت کرے اور انکو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا کرے۔
تب یہ پہلی غزل تھی نوے کی دہائی کے آخری برسوں کی بات ہے جب ہم مولوی کے ساتھ اس غزل پر جھگڑرہے ہوتے اور وہ اپنی کیفیت میں چلے جارہے، پھر اسکے بعد سنا کہ نعتیں باقاعدہ غزل گوئی کی طرز پر گائی جانے لگیں، پھر قرآنی آیات کا گایا جانا بھی عام دیکھا گیا، پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ یہ دکان چل نکلی ہے تو بہت سے گانے والوں نے نعتیں اور حمدیں گانا شروع کیں اور ہم نے انکو بہت برا بھلا کہا، مولبی لوگ تو فل تپے ہوئے ہوتے، پہلے غزل گو نعت پڑھنے والی طاہر سید تھی، فیر بس جیسے برسات میں کھنبیاں پھوٹتی ہیں ایسے غزل گو اپنی جون بدل کر نعتیے ہوگئے، بعئی ہمارے علم کے مطابق تو گانا اسلام میں شرعی طور پر منع کیا گیا، اور قرآن کو گاکر پڑھنے والوں پر لعنت کی گئی، تو فیر یہ اب جو چل رہا ہے، وہ کیا سین ہے۔ ؟؟؟ یہ سب اگر مولوی جی حیات ہوتے تو انکے ساتھ بحث ہونی تھی اور انہوں نےکہنا تھا سادیوں تہانوں نہیں پتا، چھڈو، انہاں نوں اپنا کم کرن دیو، تے تسیں اپنا کم کرو۔
تو ہم کون سا توپ لئے گھوم رہے انکے پیچھے، گائیں جی نعتیں گائیں حمدیں گائیں، ، قرآنی آیات گائیں اور ہم تو اپنا کام کررہے ہیں، پوری قوم اپنا کام کررہی ہے۔