ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات, فروری 23, 2012

بلوچستان، جہلم اور اٹلی


ویسے تو آج کل ہر طرف بلوچستان بلوچستان ہورہی ہے، مگر میں سوچ رہا تھا،  کیا فرق ہوا  جہلم اور بلوچستان میں؟  یا میرپور آزاد کشمیر اور بلوچستان میں  ؟  یا نواب شاہ میں، یا لاڑکانہ میں؟؟؟ میرے گراں میں اور بلوچستان  کے ایک پسماند ہ  دور دراز گوٹھ میں؟؟؟

ابھی آپ کہیں گے کہ لو جی ڈاکٹر صاحب کی تو مت ہی ماری گئی ہے، یا لازمی طور پر انہوں نے آج مشہور اٹالین شمپائن "کا دیل بوسکو   "کی بوتل چڑھا لی ہے، جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

ہاں کل سے زکام  نے مت ماری ہوئی ہے،  بلکہ ناس ماری ہوئی ہے،   ادھر تک پہنچتے وقت چار بار چھینک چکا ہوں، ناک میں گویا مرچیں بھری ہوئی ہیں  اور دماغ میں بھوسہ (یہ اگر میں نہ لکھتا تو آپ نے کہہ دینا تھا، بہت سے قارئین  کو جانتا ہوں اب)۔مگر اس کا مطلب قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ میں پاگل ہوگیا ہوں،    بلکہ یہ سوال اپنے آپ سے بقائمی ہوش  و حواس کررہا تھا،  میں بقلم خود  یعنی کہ مطلب ، چونکہ گویا کہ  چنانچہ۔ یہ میں نے ازراہٰ  تففن نہیں لکھا،  قسم  سے ،  
اسکا مقصد اپنے دماغ کو بہت چالو ثابت کرنا تھا کہ یہ باریکیاں ابھی بھی  یاد ہیں۔ ہیں جی

لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ یعنی کہ  اپنے  شہر کی تعریفیں ،  جہلم  میں کہ پاکستان کا ترقی یافتہ ضلع گنا جاتا ہے، جہاں پڑھے لکھے لوگوں اور دراز قامت جوانوں کی بھر مارہے ، بقول سید ضمیر جعفر کے ، جہلم میں چھ فٹ قد معمولی ہے مطلب آپ اس کو حیرت سے نہیں دیکھو گے ، نہ طویل القامت میں شمار ہوگا اور نہ ہی پست قامت میں ،   تعلیم کا بھی کچھ احوال مختلف نہیں، جو لڑکا آپ کو بھینسو کے پیچھے گھومتا ہوا نظر آرہا ہوگا وہ عین ممکن ہے بی اے پاس ہو، یا سپلی کی تیاری میں مشغول ہو،  ہیں جی،  میں خود کالج کے آخری سالوں تک بھینسوں کو چراتا رہا ہوں، چرنا تو خیر انہوں نے خود ہی ہوتا تھا مگر اس بہانے گھر سے ہم فرار۔معاشی خوش حالی  کا یہ عالم  ہے  کہ  اگر آپ میرے پنڈ جاؤ گے تو بقول "پورے گاؤ ں میں ایک بھی دیوار کچی نظر  نہیں آئی"     یہ بیان تھا ایک سندھی ڈاکٹر صاحب کا جو سنہ 1995 میں  میرے ایک دن کے اتفاقاُ مہمان بنے۔  یہی  حال دیگر گاؤ ں کا ہے، اچھے گھر اور کوٹھیاں، مطلب ولاز ،  بنے ہوئے  دکھائی دیں گے آپ کو ، ہر گاؤں  میں، بلکہ پورے جہلم، میرپور، گوجرخان ، کھاریاں اور گجرات کے علاقوں میں ۔  جرنیٹر ، یو پی ایس ، کیبل  اور اب چند ایک برس سے وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت عام ہے۔ میں اپنے گاؤ ں کی بات کررہا ہوں۔  

علی جو میرے ماموں زاد ہیں  اور بلوچستان میں فوجی خدمات سرانجام دے چکے  ہیں انکے بقول بھی اور آج کل ٹی وی  پر آنے  والی خبروں کےمطابق  بھی بلوچستا ن  میں صورت حال اسکے بلکل برعکس ہے،وہاں پر پورے کے پورے گاؤں میں شاید ہی کوئی بندہ  اب بھی پڑھا لکھا  ملے، بیشتر علاقے کے علاقے  باقی سہولیات تو کجا ، پینے کے پانی  اور پرائمری اسکول کو ترس رہے ہیں،  حسرت و یاس بھری نگاہیں دیکھتی ہیں ان اسکولوں کو ، جن میں  نوابوں اور سرداروں کے  ڈھور  ڈنگر بندھے ہوتےہیں۔

ابھی تو آپ میرے دماغ کے خلل پر یقین کرچکے ہونگے کہ  خود ہی اپنے بیان کی نفی کردی، زمین آسمان کا فرق ثابت کردیا، مگر ایک مماثلت ہے اور وہ ہے بہت اہم اور بہت بری بھی  ( اسے بڑی مت پڑھئے)۔  کیوں ؟؟  پھر پڑ گئے پھر سوچ میں؟؟؟

بات یہ ہے جی کہ مماثلت دونوں طرف حکومتی کارکردگی  کی  ہے ،  جو ہر دور طرف ایک جیسی ہے ،  اگر ادھربندے پڑھے لکھے ہیں تو پرائیویٹ اسکولوں کی مہربانی سے،  اگر   کوئی دیوار کچی نہیں تو اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں،  ہر بندے نے اپنے  اپنے گھروں کو حسب اسطاعت خود تعمیر کیا ہے، اچھا یا اس سے بھی اچھا، گلیاں و نالیاں اکثر و بیشتر اپنی مدد آپ کے تحت ہیں، پانی کا نظام اپنا ذاتی ہے، ابھی میں  بھائی سے سولر سسٹم کی انسٹالیشن کے بارے پوچھ رہا تھا کہ واپڈا سے اگر جان چھڑائی جاسکے مستقل بنیادوں پر تو، ادھر بھی اتنے ہی ڈاکے پڑتے ہیں، اتنی ہی چوریاں ہوتی ہیں، اتنے ہی قتل ہوتے ہیں۔

حکومتی کارکردگی وہی ہے جو بلوچستان میں ہے، طاقتور کے ساتھ اور کمزور کو کچلنے کی اچازت۔
ہمارے یہاں پر جو کچھ بھی ہے وہ اٹلی، انگلینڈ ، فرانس، اسپین ، جاپان ، سعودیہ وغیرہ میں ہمارے جیسے   پردیسیوں کی بدولت ہے، ادھر سے لو ساٹھ کی دہائی میں انگلینڈ جانا شروع ہوئے تھے، پھر ستر میں سعودیہ ، اسی  میں فرانس و جاپان ، نوے  میں اٹلی ، اسپین  و یونان  اور اب تو ہر طر ف ، ایک پھڑلو پھڑلو مچی ہوئ ہے بقول حکیم علی صاحب کے۔

  اگر آپ ان لوگوں کے گھرروں اور پیسوں کو نکال دیں تو جہلم اور بلوچستان کے کسی پسماندہ  گاؤں میں شاید ہی کوئی فرق ہو


اظہار تشکر:  یہ مضمون حضرت یاسر خوامخواہ جاپانی کی ترغیب پر لکھے جانے والی تحاریر کی کڑی ہے


4 تبصرے:

  1. تو پھر اس کے قصور وار بلوچی ہرگز نہیں بلکہ ہردور میں آنے والی گورنمنٹ رہی ہے جس نے ڈنڈا بھی پھیرا ہے لیکن پھر بھی بلوچستان میں تعلیم اور ترقی نہیں لاسکی۔
    ایسے میں پھر کیوں نا بلوچستان کو آزاد ہی کردیا جائے جیسے گھروں میں ماں باپ کسی حد سے بگڑ جانے والے بچے کو عاق کردیتے ہیں
    نوٹ: میں بلوچستان ایک آزاد ریاست اور پاکستان سے آزادی کے سخت خلاف ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  2. ہمارے علاقے اور بلوچستان میں شاید ہی کوئی فرق ہو۔ایبٹ آباد میں فوجی چھاونی ہے ،یہ علاقہ اور آس پاس والے علاقے کچھ بہتر حالت میں ہیں یا پھر جن علاقوں میں سیاح آتے ہیں۔۔پیچھے پہاڑوں پر چلے جائیں تو وہ ہی ایک دو صدیوں پہلے والی معاشرت ہے۔۔یا باہر کی کمائی سے کچھ اچھے مکان نظر آتے ہیں۔۔کئی مکان تو بیس بیس سال سے زیر تعمیر ہیں۔
    بلوچستان کو آزاد کرنے میں بھی میرے خیال میں کوئی حرج نہیں آزادی دے کر بھی کوئٹہ اور گوادر کا ساحل انہیں نہیں ملے گا پختون پٹی والے پاکستان میں رہیں گے۔۔معدنیات سرمایہ دار لے اڑیں گے۔
    باقی بچے ہوئے ایران سے آزادی کی جنگ لڑیں گے۔۔
    معدنیات کی لالچ میں بلوچیوں پر تشدد کرنا بھی ظلم ہے۔
    اگر انہیں اپنا سمجھا جارہا ہے اور وہ اپنے ہیں تو ہمیں جو کچھ میسر ہے اس میں سے ان کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔
    بحرحال بلوچستان کی عوام ہمارے ہیں۔۔جس طرح دوسرے علاقوں کے ہیں۔۔ہمیں اتنی ہی تکلیف محسوس ہوتی جتنی سندھ ،سرحد ۔ پنجاب کے لوگوں کیلئے محسوس کرتے ہیں۔۔بلوچیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے۔وہی کچھ پختونوں پنجابیوں سندھیوں سے ہو رہا ہے۔۔اس کا حل ایک دوسرے کی گردن مارنے یا ایک دوسرے کو الزام دینے میں نہیں۔۔۔ہمیں سب کیلئے جدو جہد کرنی ہوگی۔۔جب تک ہمارے پاس یہ پاکستان نامی ملک ہے۔۔جب تک ہماری پہچان پاکستان ہے۔۔۔بنگالیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یا کس حالت میں ہیں ۔۔ہم میں سے شاید کسی کو اتنی تکلیف نہیں ہو رہی ۔کیونکہ ان سے ہمارا اب کوئی خاص تعلق نہیں ۔۔مذہب کے نام سے تعلق جوڑیں تو مذہبی تعلق کا حال سب کے سامنے ہے۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. مجھے تو لگ رہا ہے کہ ہم سب کو ماموں بنایا جارہا ہے۔ بلوچستان کی آڑ میں امریکہ، خاکیوں کی گچی مروڑ رہا ہے کہ افغانستان کے گھڑمس میں ہماری مدد کرو ورنہ۔۔۔
    اور ہم بلوچستان بلوچستان کرکے ہفے جارہے ہیں۔ جبکہ اصل مسٗلہ مینوں نوٹ وخا کا ہے۔ خاکیوں کی پسند کے مطابق نوٹ وخا دیئے گئے تو کونسا بلوچستان اور کونسی پسماندگی اور کونسی علیحدگی کی تحریک

    جواب دیںحذف کریں
  4. اچھا مشاہدہ، بلوچستان کو تو لوگ ایسے ہی رو رہے ہیں، ادھر تو سارے ملک کو ہی یہی حال ہے، یہ جو ترقی کہیں کہیں نظر آرہی ہے یہ تو پوری دنیا میں ہونے والی ترقی کے کچھ اثرات ہیں، وہ کیا کہتے ہیں کہ جب ہوا چلتی ہے تو چوہے کے بل میں بھی لگتی ہے۔ باقی بلوچستان یا ملک کے دیگر خطے ایک ہی صورتحال کا شکار ہیں

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں