گزشتہ داستان کو آگے بڑھاتے ہوئے
اس خاندان کا بیٹا جو اب لڑکپن کی عمر میں ہے اور ادھر اسکول پڑھنے کی وجہ سے اسکی مقامی اطالوی زبان پر مناسب اور قابل استعمال حد تک دسترس ہے۔ یہ اس خاندان کا ترجمان ہے، کہیں پر جانا ہے کسی بھی دفتر یا محکمہ میں تو یہی ان کا چاچا بنا ہوتا ہے، اور ابھی کچھ عرصہ سے اس نے یہ بھی کہنا شروع کردیا ہےکہ آپ کو کیا پتا، اس خاندان کی نگرانی کرنے والے لوگوں کے مطابق اس لڑکے نے ماں اور باپ کے ساتھ بدتمیزیاں بھی شروع کردی ہیں اور انکو بلیک میل بھی کرتا ہے۔ کہ مجھے پچاس یورو دو نہیں تو ۔ ۔ ۔، مجھے لیوز کی جینز کی پینٹ لے کر دو نہیں تو، ۔۔۔۔ اسکول بھی اپنی مرضی سے جاتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ابھی کچھ عرصہ سے اس نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مجھے اتنے پیسے دو نہیں تو میں پولیس کو فون کردوں گا کہ تم نے مجھے مارا ہے، یا پھر سماجی خدمت والوں کو بلا لوں گا، یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ اس لڑکے کی دوستی اپنی سے دوگنی عمر کے لوگوں سے ہے اور یہ کہ ان کا تعلق مختلف ممالک و مذاہب سے کہے، زیادہ تر لچے ہیں اور کچھ پر نشہ کرنے و بیچنے کا بھی شبہ ظاہر کیا جاتا ہے، ان اداروں کے کارکنان کے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ یہ لڑکا پیسے دیتا رہا کہ اس کو عورتیں لا کردی جائیں،اب یہ پیسے کہاں سے اسکے پاس آتے رہے، اس بارے یہ علم ہوا کہ وہ پیسے اپنے والدین کو دھمکا کر ان سے لیتا رہا ہے، ایک چودہ سولہ برس کا لڑکا اس روش پر چل نکلے کیا یہ نارمل ہے؟؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے؟ کیا ان والدین کی اپنی اولاد پر پرورش پر شک نہیں کیا جاسکتا؟؟ کہیں ایسے تو نہیں ہے کہ لڑکا جو خاندان کو اس معاشرے میں انسرٹ ہونے میں معاون ہے اور پل کا کام کرتا ہے، اپنے آپ کو اتنا اہم سمجھنے لگا ہے کہ گویا وہ اپنے والدین کا بھی چاچا ہے۔ کیا اسکو والدین کی کمزوری لیا جائے گا یا ادھر کے اداروں کو اس تربیت کا ذمہ دار ٹھرایا جائے گا؟؟
آج کلوالدین کے پاس تربیت کرنے کا ٹائم ہی کہاں جو ان کو مورد الزام ٹہرایا جائے
جواب دیںحذف کریںتربیت کا ٹھیکہ میڈیا و معاشرہ کے پاس ہے
اور معاشرہ بھی جو تربیت کررہا ہے وہی یہی ہے کہ بس سب مادر پدر آذاد ہوجاؤ،
جواب دیںحذف کریںمیرے خیال سے تو ان حرکات پر چلنے والے بچوں سے متعلق یورپ میں بھی آہنی ہاتھ موجود ہیں۔
جواب دیںحذف کریںماں باپ خود ہی کیوں نہیں سماجی مدد والے ادارے کو فون کر کے بچہ پکڑا دیتے۔ دو دن جب وہاں پر لیکچر سننا پڑے گا تو خود ہی نیک و پاک ہوجاوے گا
جی راجہ صاحب درست فرمایا آپ نے۔
جواب دیںحذف کریںمعاشرہ کو پتا نہں کس حد تک آززادی چاہئے۔۔۔۔
@ عبدالقدوس صاحب
ہائے میرا بچہ
کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا
جواب دیںحذف کریںاپنے معاشرے کو چھوڑ کر دوسرے معاشروں میں بسنے والے کس طرح یہ توقع کرسکتے ہیں کے ان کی اقدار برقرار رہیں گی
جو بچے بیرون ملک پیداھوئے اور وھیں پلے بڑھے ھوتے ھیں، وہ وھیں کے ثقافتی ھوتے ھیں۔ ان سے اپنی طرح دوھری زندگی گزارنے کی امید ٹھیک نہیں۔
جواب دیںحذف کریں