معاملہ انڈیا سے
تعلق رکھنے والے ایک سکھ خاندان کا ہے، جو
باپ ، ماں، سولہ سالہ بیٹے اور دو چھوٹی بیٹیوں پر مشتمل ہے۔ باپ جو سن بانوے میں اٹلی آیا اور
اسکاتعلق پنجاب کے ایک گھرانے سے ہے جو
زمین کا مالک ہے ، مطلب کھاتے پیتے لوگ،
ماں اٹلی میں دس برس بل آئی ، شادی کے
چند برس بعد ، تب یہ لڑکا اسکی گود میں تھا، دو چھوٹی بیٹیاں انکے ہا ں ادھر اٹلی میں پیدا ہوئیں۔باپ ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے جہاں پر اسے مٹی وغیرہ کو
ہٹانا ہوتا ہے، بہت ہی گندا اور بھاری کام، بقول اسکے بہت ہی غلیظ کام ، جو میرے
علاوہ کوئی کرنے کو تیار ہی نہیں ہے، جبکہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں، پس اس نے شراب پینی شروع کردی اور ٹن
ہوکے پیتا، وجہ اس لال پری کی یہ بیان کرتا ہے
کہ پیتا ہوں غم کو مٹانے کو اور ٹینشن کو گھٹانے کو۔
ماں انڈیا کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اسکا
دادا پنڈ کا لمبردار ہے نہ صرف بلکہ
گرہنتھی بھی ہے، اپنی طرف امام صاحب کہہ
لو۔ شادی دونوں خاندانوں کی رضامندی سے ہوئی تھی شادی کے پورے نو ماہ بعد انکے بچہ پیدا ہوا۔
یہ ادھر بسنے والے
ہر دوسرے خاندان کی فوٹو اسٹیٹ ہے جو
پنجاب سے ادھر آبسا، یہ خاندان اداروں کی نظر میں اس وقت آیا جب ایک شام کو
یہ بزرگ اپنی دونوں بچیوں کے ساتھ چہل قدمی فرماتے ہوئے سڑ ک پر لڑھک
پڑے اور غین ہوگئے۔ بچیاں جو دس
اور آٹھ برس کی ہیں اپنے والد کو سنبھال نہ سکیں اور ڈرکر رونے چلانے لگیں، چلتے پھرتے راہگیروں میں سے کچھ لوگ نزدیک
ہوگئے اور کسی نے پاس سے گزرتی ہوئی پولیس
کی گاڑی کو ہاتھ دے لیا، ادھر پولیس صرف
مجرم ہیں پکڑتی بلکہ ہر ایمرجنسی میں آپ کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہے، پس ایمبولنس بھی کال ہوگئی اور سردارجی کو اٹھا کر ہسپتال پہنچادیا گیا، جہا ں پر معلوم
ہوا کہ یہ حضرت ٹن پڑے ہیں، اور انکے اندر الکحل کی موجودگی کا درجہ دوسو بیس پایاگیا ، بس الارم کھڑک گئے،
کہ دیکھو یہ کیسا باپ ہے جو اس حالت
میں پایا گیا کہ بجائے اپنی بچیوں کی دیکھ
بھال کرسکتا خود سے بھی بے خبر ہے، یہ واقعہ ایک برس پیشتر کا ہے، بس پھر تفتیش
شروع ہوگئی اور ادارے حرکت میں آگئے، معاملہ عدالت تک پہنچا تو عدالت نے فوراُ
فیصلہ سنا دیا کہ اس نشئی بندے کو اس طرح بچوں کے ساتھ نہیں رہنے دیا ، جاسکتا، بہت
برا اثر پڑے گا ان پر، پس عدالت کے حکم پر سردار جی کوگھر سے بے دخل کردیا گیا، کہ جاؤ میاں اپنا بندوبست کرو، اور ایک ماہر نفسیات، ایک سماجی مسائل کی ماہر، ایک ایجوکیٹر، اور ایک ثقافتی ثالث کو تعینات کردیا گیا کہ لو جی دیکھو ذرا اس خاندان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔
میرے خیال میں کسی بھی مسکن دوا یا نشے کی بلا روک ٹوک فراہمی انسان پر ذمہ داری کا بہت بڑا بوجھ ڈال دیتی ہے ۔ہر انسان اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ ہمیشہ صحیح کا ہی انتخاب کرے۔ میرے خیال میں سردار صاحب کے علاج میں ان کی مدد کی جانی چاہیے ۔ اسس سلسلے میں وہاں ان کی سکھ برادری کا کردار بڑا اہم ہو سکتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںجناب یہ کچھ تو ہورہا ہے، مگر بات ابھی ختم نہیں ہوئے ان سارے حالات کا جس انداز میں تجزیہ کیا گیا وہ کمال دلچسپی کا ہے
جواب دیںحذف کریںاچھا سلسلہ شروع کیا جناب ۔
جواب دیںحذف کریںاگلی قسط کا انتظار رہے گا
اس کیس کو اگر پاکستان کی نظر سے دیکھا جائے تو یہاں تو بلکل الٹ ہے، کوئی قانون نہیں ہے، بچوں اور بیوی کو ساری عمر ان جازوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔اور ان کے ظلم سہنے پڑتے ہیں۔کوئی قانون،عدالت اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتی۔
جواب دیںحذف کریں