چچا
غالب ہمارے پسندیدہ چچا ہیں، یہ اردو
شاعری والے مرزا اسداللہ خان غالب
نہی ہیں بلکہ یہ ہمارے پنڈ کے ہیں اور پنجابی ٹکا کے بولتے ہیں، والد صاحب کے کزن ہیں
اور راجہ غالب سلطان لکھے جاتے ہیں، ہمارے یہ چچاجی فل مخولیا طبیعیت کے ہیں، اتنے مخولیا کہ ہمارے اسکول کی تفریخ کوئی بھی افراتفریح کہتے، ہم اسکول کی چھوٹی تفریح کرتے تو کتنی بار انکو
باہر بابے لنگے کی دکان کے پاس کھڑے پایا اور اس دن بابا لنگا ہمیں اور ہمارے درجے کے دیگر پنڈ کے لڑکوں کو مفت میں "پھلیاں مکھانے" دیتا،
اور شام کو چچاغالب ہمیں چھیڑتے کہ
" اوئے تم لوگ نکی افراتفری
کے "ویلے" بابے لنگے سے مفت پھلیاں مکھانے کس چکر میں کھارہے تھے۔ " بعد میں معلوم ہوا کہ بابے لنگے کو انہوں نے خود ہی کہا ہوتا کہ
میرے ہوتے ہوئے خبردار میرے بھتیجے بھانجوں سے پیسے لئے تو، اور خود اسکو پیسے چکا دیتے، پورے پنڈ کے بچے ہی تو انکے بھتیجے بھانجے ہیں۔
اسی طرح بڑی تفریح کے وقت ہم گھر روٹی کھانے جاتے تو چچا غالب پھر ہمارے ساتھ مخول کررہے ہوتے " کیوں بھئی ہر وقت کھاتے ہی رہتے ہو، ہر وقت افراتفری میں ہی رہتے ہو، کدی نکی، تے
کدی وڈی۔
ایک
دن میں نے پوچھ لیا چچا آپ تفریح کو افراتفریح کیوں کہتے ہیں تو فرمانے لگے کہ
"پتر جی جس تیزی اور چستی سے تم لوگ بھاگتے ہوئے گھر آتے ہو، کھانا کھاتے ہو
اور پھر بھاگتے ہوئے اسکول پہنچتے ہو، پھر بھی لیٹ ہوجاتے ہو اور ماسٹر سے ڈنڈے
بھی روز کھاتے ہو۔ تو پھر تفریح تو نہ ہوئی، یہ تو افراتفریح ہی ہے ، نری
افراتفری۔ ہیں جی
چچا غالب ویسے بھی بہت پر مزاح بندے ہیں، ابھی بھی گو باریش ہوچکے مگر وہی ہنسی، وہی محبت، وہی چاہت، پاکستا ن پہنچیں تو پہلے جن بندوں سے ملاقات ہوتی ہے ان میں سے ہیں اور جن کو مل کر احساس ہوتا کہ گھر پہنچ گئے ہیں۔
ہمارے
مولانا یعنی کہ ڈاکٹر صاحب قادری جی
المعروف شیخ الاسلام کینیڈوی اچانک چھلانگ مار کر پاکستان آگئے اور انہوں نے اپنے ناچنے والے پروگرام کی طرح پورے ڈھول
تاشوں سے اچھل کود مچادی، ہرروز کوئی نہ کوئی
دھما چوکڑی، جلسہ، جلوس، ملک میں جب پانچ برس بعد الیکشن ہونے والے ہیں، عوام
کوووٹ ڈالنے کا حق ملے گا، شاید بغیر خون خرابے کے خبیثوں سے جان چھوٹے، اور آنے
والے انکی ناکامی کو دیکھتے ہوئے اس سے بچنے کی کچھ تدبیر کریں اور مفادعامہ کی
کچھ کام کرلیں۔ امید پر دنیا قائم ہے۔
مگر
مولبی جی کا پروغرام ہے کہ نہیں جی ایک
ٹائم پاس حکومت ہو جو پہلے احتساب کرے، پھر الیکشن ہوں، پر باوا جی سے بندہ پوچھے کہ ایک طرح کی چھاننی سے ہی چھانو تو گند نکلے گا،
اور جو بچے گا وہ ایک طرح کا مال ہی ہوگا، اگر آپ روز چھاننی بدلی کروگےتو ، پھر
یہ جو نئے آنے والے ہیں انکے میرٹ کا تعین کون کرے گا، الیکشن ایک پراسس ہے جس سے کچھ کچھ نہ کچھ گند صاف ہوتا رہتا۔ گو فل
صفائی نہیں ہوسکتی۔ مگر پھر بھی۔ بصورت دیگر، وہی ون مین شو، کون حکومت بنائے گا، کون بنوائے گا، انتظام کی ذمہ داری کس پر، محاسبہ ہوگا ؟ کون کرے گا۔
مولوی
جی کو عدالت سے بھی صاف جواب ملا تو ایک نئی افراتفری ڈال دی کہ جی دوھری شہریت
والوں کی "بِیزتی " ہوگئی، اب واقعی یہ کہ کہ جب کوئی بھی
بندہ چوول کام کرے گا تو اسکی بیزتی تو
ہوگی، اگر پاکستانی شہریت والا مشرف کرے گا تو پاکستانی شہریت کی بیزتی، اگر دوھری
شہریت والا مولوی قادری اور حسین حقانی
کرے گا تو دوھری شہریت کی بیزتی، اگر کوئی برطانوی شہریت والا جارج پٹھ کرے گا تو
برطانوی شہریت پر تھو، تھو ہو گی۔
پس مسئلہ اکہری و دوہری شہریت نہیں ہے، بلکہ اعمال
ہیں جیسی نیت ویس مراد، مولوی جی کے ساتھ
بھی وہی ہوا جو انکی نیت تھی۔ اللہ بڑا
بے نیاز ہے
چلو جی فیر طبعیت سیٹ ہو گئی ناں
جواب دیںحذف کریں:)
جواب دیںحذف کریںپس مسئلہ اکہری و دوہری شہریت نہیں ہے، بلکہ اعمال ہیں جیسی نیت ویس مراد، مولوی جی کے ساتھ بھی وہی ہوا جو انکی نیت تھی۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے
خوب۔ لیکن راجہ جی ایسے بندے کو مولبی نہ کہیو۔ ورنہ مولویوں کی چڑ بن جانی۔۔۔ اوئے تم طائر القادری ہو گئے ہو۔
اب سوال یہ جمتا ہے کہ اب شیخ الاسلامآباد کا اگلا پروغرام کیا ہوگا گھار جاتے جاتے دو عدد گوٹیاں تو پٹوا چکے ہیں ڈاکٹر ساب
جواب دیںحذف کریںلگتا ہے قادری سے آپکو خاص محبت ہے۔
جواب دیںحذف کریںویسے بہت سارے لوگ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اوورسیز پاکستانیون کے بیعزتی خراب کرنے والا کہہ کر پسوڑی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جواب دیںحذف کریں