دروغ بر گردن۔۔۔۔۔
فارسی زبان کا بہت قدیم محاروہ جو تاریخ کی کتابوں میں اکثر ملتا ہے، مثلاً علامہ ابن کثیر کی تاریخ میں قدیم جنگوں کے بیانِ احوال کے بعدمرنے والے اور زخمیوں کی تعداد طرفین کی طرف سے مختلف روایتوں کے حوالہ سے بیان ہوتی ہے اور چونکہ ہر روایت کا راوی مختلف ہونے کی وجہ سے بیان کردہ تعداد بھی کم و بیش ہوتی رہتی، اب عام فہم سی بات ہے کہ ایک جنگ میں مقتول و مجرع افراد کی تعداد تو ایک ہی ہوتی ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہاایک ہی جنگ میں تین سو چالیس بندے مرے ہوں اور پانچ سو بیس بھی مگر ایسی صورت اکثر سامنے آتے رہتی ہے نہ صرف قدیم تاریخ میں بلکہ جدید تاریخ یعنی گزشتہ کل کی جنگوں، عراق، افغانستان وغیرہ، تو تعداد کی کم بیشی لازمی طور پر ایک اختلاف کو ظاہر کرتی ہے، جسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ سچا تو ایک ہی ہے جبکہ باقی کے لوگ ’’دروغ گو’’ یعنی ’’جھوٹے ’’ ہیں۔ اب یہ بھی لازم نہیں کہ راوی ہی دروغ گو ہو بلکہ ایسے بھی ممکن ہے کہ بھول چوک، غلط فہمی اسکی وجہ ہو یا پھر راوی بھی ذاتی طور پر صرف روایت ہی بیان کر رہا ہو، اب اس سارے قضیے کو جو ہزار سال پہلے ہو چکا ہو کون نمٹاتا پھرے اور دماغ کھپائے علامہ موصوف اس سارے قضیہ کا فیصلہ کرنے کی بجائے اپنی جان چھڑاتے اور لکھ مارتے ’’ دروغ بر گردنِ راوی’’۔ میں نے جو سنا لکھ دیا۔ علامہ صاحب تو اپنی جان چھڑا کر ’’راوی صاحب کی گردن کو پھنسا کر چلتے بنے کہ بھئی اگر کوئی شک ہے تو صاحبِ روایت کو پوچھیے، مگر اردو ادب کے کچھ اہل ذوق لوگوں نے راوی کو دریائے راوی لکھ کر راوی صاحب کی جان بخشی کروادی۔ ’’دروغ بر گردنِ دریائے راوی’’ اور اگر آپ کو بات میں کوئی جھوٹ یا شک نظر آتا ہے تو ہماری بجائے دریائے راوی کو پکڑیے اب بھلے ہم جھوٹ ہی بولیں دریائے راوی تو ترید کرنے سے رہا
Post Top Ad
Your Ad Spot
ہفتہ, مئی 28, 2005
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
ڈاکٹر صاحب۔ پرانے زمانہ میں تو کچھ لوگ دروغ بر گردن راوی کہہ کر یہ بتا دیتے تھے کہ ضروری نہیں بات کلی طور پر صحیح ہو۔ آجکل تو لوگ بڑے وثوق سے غلط بیانی کرتے ہیں۔ چاہے وہ صدر یا وزیر اعظم یا وزیر ہوں یا مجھ جیسے عام آدمی۔ اللہ دروغ گوئی سے بچائے۔ یہ سب گناہوں کی جڑ ہے۔
جواب دیںحذف کریںفی زمانہ تحقیق سے معلم ہوا ہے کہ سب سے زیادہ مبالغہ آمیز اور دروغ گو تاریخ لکھنے والے ہوتے ہیں جو اپنے نان نفقہ کی خاطر حاکم وقت کی خوشنودی کے لئے تاریخ لکھتے ہیں۔ لیکن آج کے صحافی سب سے نمبر لے گئے ہیں۔
بہت خوب لکھا ہے
جواب دیںحذف کریں:)
آپ کی غیرحاضری تین ہفتے ہو گئی ہے ۔ بہرحال خیریت ہونا چاہیئے ۔
جواب دیںحذف کریںشائد اس میں آپ دلچسپی رکھتے ہوں ۔ اردو میڈیم کے ایک طالب علم نے کچھ انکشاف کیا ہے ۔ ذرا دیکھئے تو یہ اردو میڈیم طالب علم کیا کہتا ہے ۔
http://hypocrisythyname.blogspot.com/2005/06/urdu-medium-school.html