بس جی کیا بتاؤں میں نے تو کہا تھا کہ ادھر آنے کا یہ طریقہ خطرناک ہے مگر وہ نہیں مانا کہ جیسے بھی ہے مجھے یورپ جانا ہے ادھر ۔ پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ یہ چئرمین وحید آنسو پونچھتے ہوئے بتارہے تھے۔
آج اٹلی میں یوم جمہوریہ کی چھٹی ہے تو کچھ احباب قدیمی سے ملاقات کا پروغرام بنا، خان صاحب نے بتایا کہ ہمارے چئرمین وحید کے بھانجے کا انتقال دوہفتے پہلے ترکی سے یونان میں داخل ہوتے ہوئے ادھر موجود نہر کو عبور کرنے کے دوران ہوگیا اور کوئی ایک ہفتے بعد نعش انہوں نے ادھر سے یونان جاکر تلاش کی اور پاکستان بھجوائی۔ چئرمین وحید کا تعلق گوجرخان کے دیہی علاقے سے ہے اور گزشتہ دس برس میں ہمارے حلقہ احباب میں کیسے شامل ہوئے یاد نہیں مگر نہایت شریف اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ اللہ انکو اور
مرحوم کے دیگر لواحقین کو اس مصیبت پر صبر دے ۔ آمین
وحید صاحب بتلا رہے تھے کہ یہ ہمارا بہت لاڈلا اور پیارا بھانجا تھا، اسکی عمر بائیس برس تھی اور اسکا ایک بھائی عمران پہلے ہی ادھر بسلسلہ روزگار موجود ہے، یہ والا بضد تھا کہ وہ مستقبل آزمائی کےلئے اٹلی آئے گا۔ میں نے اور عمران نے بہت کوشش کی ہے اسے ادھر قانونی طور پر بلاونے کی مگر کوئی ترکیب کاریگر نہ ہوسکی، اور پھر ایک دن وہ کہنے لگا کہ ماموں ہمارے پنڈ کے دس بارہ لڑکے ترکی کے رستہ یونان جارہے ہیں میں بھی انکے ساتھ ہی چلا جاتا ہوں، پھر یونان سے کسی طرح اٹلی پونچ جاؤں گا۔ میں نے ذاتی طور پر اسے منع کیا کہ یہ راستہ خطر ناک ہے اکثر لوگوں کی جانیں جانے کی خبر آتی رہتی ہیں، سنا ہے بارڈر کراس کرتے ہوئےپولیس گولی بھی ماردیتی ہے۔ مگر اسکا جواب تھا ماموں لاکھوں لوگ ادھر پہنچ بھی تو گئے ہیں، ادھر پاکستان میں رہ کر بھی تو گزراہ نہیں
ہورہا، نہ کوئی کام نہ کاج، نہ کوئی حال نہ مستقبل، ٹھیک ہے خطرہ تو ہے مگر ایک دفعہ پہنچ گیا تو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔
مگر وہی ہوا جسکا ڈر تھا، نہر پارکرتے ہوئے کشتی الٹ گئی اور باقی تو سارے پار لگ گئے مگر یہ بچارہ جان کی بازی ہار گیا،
میں سوچ رہا تھا کہ وہ دن کب آئے گا جب ہمارے ملک میں امن اور سکون ہوگا اور لوگ اپنا مستقبل دیکھ پائیں گے اور انکو یورپ و امریکہ جاکر اپنا مستقبل بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، نہ ہی اس مستقبل کی قیمت جان کی شکل میں دینی پڑے گی۔ یہ خون جوگیا، یہ ایک نوجوان جو مستقبل کی بھینٹ چڑھا، یہ ایک جان جو گئی ، اسکا الزام کس کے ذمے ہے،؟؟؟
یہ لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کیا جائے؟؟ اس جیسے اور لوگ جو جان کی بازی ہارگئے اور جو نہیں ہارے ان کا ذمہ دار کون ہے
Thats a great article, Thanks much.
جواب دیںحذف کریںجناب آرٹیکل تو گریٹ نہیں مگر صورت حال بہت پیچیدہ ہے، میں تے تو سادہ سی بات لکھ دی،
جواب دیںحذف کریںمعذرت کے ساتھ ، اس میں ملک سے زیادہ شارٹ کٹ مزاج کا عمل دخل ہے۔ یورپ میں آپ کو علم ہیں ہے کہ اسکلڈ ورکرز کی ڈیمانڈ ہے لیکن اگر آپ پاکستان میں تعلیم پر توجہ ہی نہ دیں تو پھر آپ کو شارٹ کٹ کی راہ دکھتی ہے۔ پاکستان میں گذارہ مشکل ہے لیکن ایسا نہیں کہ آپ یورپ کے چکر میں جان سے کھیل جائیں
جواب دیںحذف کریںجناب ،کچھ شہر دے لوگ ظالم ہیں اور کچھ مرن دا شوق وی ہے،
جواب دیںحذف کریںاس طرح کے واقعات ان گھرانوں میں زیادہ ہیں ،جہاں نوجوانوں کو کھانے کو وافر ملتا ہے۔ماں باپ خوب لاڈ پیار دیتے ہیں ،لیکن تعلیم و تربیت کا نہیں سوچتے۔
اگر یہی بچہ پڑھائی کی طرف دھیان دیتا،تو میرے خیال میں قانونی طور پر بھی غیر ملک جا سکتا تھا۔۔۔ہمارا معاشرہ بھی ایسا ہے کہ اگر کسی کے گھر میں دانے ہیں تو اس گھر کا نوجوان کپڑے گندے ہونے والا کام کرنے میں اپنی توہین سمجھتا ہے۔۔کرنے کو پاکستان میں بھی بہت کام ہیں۔
میں فارغ اور یاسر کے تبصرے سے متفق ہوں۔
جواب دیںحذف کریںمیری ناقص رائے میں تو کسی حد تک والدین کا بھی قصور ہے۔
جواب دیںحذف کریںاگر سارا قصور صرف والدین کا ہی ہے تو پھر جناب معاشرے کو اور سرکار کو بری الزمہ ہی قراردیتے ہیں، پھر سوال یہ اٹھے گا کہ ہمارے ہی ملک میں والدین اس طرح کے قصور کیوں کررہے ہیں؟؟ مثلاُ اٹلی یا جاپان یا جرمنی کے والدین آپنے منڈوں کی ایسے تربیت کیوںکر کرلیتے ہین؟؟
جواب دیںحذف کریںسلام در ساب مین سمجتا ھون اس مین ھم سب کا ھی کسور ھے زیادہ ھم جو ملک سے باھر ھین جب پاکیستان جاتے ھین توجو ائاسی ھم لوگ کرتے ھین پاکستان مین رھنے والے سمجتے ھین کھ مستقبل باھر جانے سے ھی وابستا ھے۔والدین اپنی زمیداری سرف بچون کی ھر جایزناجایز بات مان کر ان کی گلت تربیت کرتے ھین یورپ مین لوگ اپنی زندگی کیسے گزارتے ھین کتنی مسکل ھوتی ھے کاس لوگ جان جاین تو ادر کا مو نھ کرین samir tn
جواب دیںحذف کریںit,s very sad story but every body remember that you leave to your home and your lover so it,s very difficult work so please take care do not use this way for brightness life thanx
جواب دیںحذف کریں