زیادہ تر لوگ ابتدائی طور پر یک دم دوڑنا شروع کردیتے ہیں لیکن جلد ہی شکست مان کر دوڑنا چھوڑ دیتے ہیں ۔
کیونکہ کسی قسم کی ابتدائی معلومات اور تیاری کے بغیر پتلا ہونے کیلئے دوڑلگانا شروع کرتے ہیں تو ان کے گھٹنوں ٹخنے کو تکلیف ہوتی ہے یا سانس لینے میں دشواری برداشت نہیں کرسکتے ۔
دوڑنا ایک سب سے آسان اور صحت مند ورزش ہے لیکن جاری رکھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کا جسم کس طرح کام کرتا ہے اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ چند قدم چند سو میٹر دوڑنے سے جوڑ دکھنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھیپھڑے سانس کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جب ہم صرف چل رہے ہو تے ہیں ، تو ہمارے گھٹنے کے جوڑ پر ہمارے وزن کے لگ بھگ 3 گنا زیادہ کا بوجھ پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر آپ 20 سال کی عمر کے بعد ورزش نہیں کرتے ہیں تو ،
آپ ہر سال اپنے عضلاتی پٹھے بڑے پیمانے پر 1٪ فیصد تک کھو دیتے ہیں ۔
یعنی یوں سمجھنا زیادہ آسان ہے کہ بیس سال کے بعد آپ کا بڑھاپا شروع ہوجاتا ہے۔
ہر سال عمرِ عزیز کا ایک سال ہم اپنے “پٹھوں” کو کمزور ہونے کی صورت میں “ہیپی برتھ ڈے” کہتے ہوئے مناتے ہیں۔
ہمارے بڑھاپے کی ابتداء وقت کے ساتھ ساتھ ، نچلے جسم کے پٹھوں اور اوپری جسم کے پیٹ کے پٹھوں میں بھاری مقدار میں کمی سےہوتی ہے۔
پیٹ کا لٹکنا یا توند نکلنا یا پیٹ نکلنا ہوتا ہے۔
“تفتیش” ،رانوں کے پٹھوں کا لٹکنا ہوتا ہے۔
جس کا نتیجہ جسم سستی مائل ہوتا جاتا ہے۔
قدرتی طور پرجسم کو کمزوری سے بچانے کیلئے انسانی جسم کااندرونی نظام زیادہ فعال ہوجاتا ہے
جس سے خوراک زیادہ ہوتی جاتی ہے۔
ورزش نہ ہونے کی وجہ سے جسم خوراک کو “چربی “ کی صورت میں ذخیرہ کرنا شروع ہوجاتا ہے۔
جس سے بلڈ پریشر ،ہائی کولیسٹرول ، شوگراور دیگر میڈل ایج بیماریاں جسم کو چمٹ جاتی ہیں۔
یہ قدرتی بات ہے کہ جب گھٹنے کے آس پاس کے عضلات کم ہوجاتے ہیں اور اچانک اپنے وزن کا تین گنا زیادہ بوجھ ڈال کر دوڑتے ہیں تو آپ کے گھٹنے ،ٹخنے ، پیٹ کے عضلات ، کندھے ،چھاتی کے عضلات بھی دکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اس وجہ سے ، بیشتر” نویلے رنرز “گھٹنوں کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ایک “شغلیہ “ سپورٹس مین کی حیثیت سے ، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو پٹھوں کی تربیت کیلئے پہلے انہیں خوب کھینچنا(سٹریچ) چاہئے تاکہ آپ کے گھٹنوں ،ٹخنوں کے علاوہ دیگر جسمانی جوڑوں کے عضلات بھی نرم ہوکے “ریلیکس “ ہو جائیں ۔
اس سے آپ کو دوڑنے سے کم سے کم تکلیف پہنچے گی اسی طرح دوڑنے کے بعد بھی یہ عمل دوہرائیں۔
سانس کو”پکانے” کیلئے آپ ابتداء میں سو میٹر دوڑ لگائیں اور اس کے بعد سو میٹر اطمینان سے چلتے ہوئے دل کی دھڑکن اور سانس کو ہموار ہونے دیں پھر اسی طرح سومیٹردوڑ لگائیں اور سومیٹر آرام سےچلیں۔
اسی طرح یہ دورانیہ بڑھاتے چلے جائیں ۔
دو سو ،چار سو ،پانچ سو میٹر ،ایک کلو میٹر اور پھر دل کی دھڑکن اور سانسیں ہموار ہوتے ہی پھر دوڑنا شروع کردیں۔
ابتداء میں تین سے پانچ کلو میٹر تک یہ مشق کریں۔
دیکھتے ہی دیکھتے
اگر “پٹھے “ دکھنا شروع کردیں تو
فریج کی برف کی کیوب کو مومی لفافے میں ڈال دکھتے پٹھے کی ٹھکور کریں۔
کھانے میں اعتدال ضروری ہے ہمارے مسالے دار کھانے جتنا مرضی تُنی جاؤ پیٹ مطمئین نہیں ہوتا۔
اس کیلئے آپ کو اپنے دماغ کا کچھ کرنا پڑے گا۔
باقی “ٹپس” بھی خواہش مندحضرات اور خواتین کے بار بار پوچھنے بتاتا رہوں گا۔
لیکن یاددہانی کیلئے بتاتا جاؤں کہ
میں کوئی ایکسپرٹ نہیں”شغلیہ سپورٹس مین” ہوں اس لئے میری باتوں کا درست ہونا غیر یقینی ہے 🤗😁
تحریر مرشد کامل یاسر خوامخواہ جاپانی عفی اللہ عنہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔