اس نے سوچا ہوگا کہ یہاں تو اب گذارا نہیں ہورہا۔ ادھر رہتے ہوئے تو روٹی پوری کرنی ہی مشکل ہورہی ہے۔ جب کہ معاشرتی اور صنعتی انقلاب کے اس زمانے میں روزمرہ کے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔ حکمرانوں ہر برس اپنی تنخواہوں میں لاکھوں کا ضافہ کےنیم مڈل کلاس کو غریب کر رہے ہیں۔
اب اس کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ پردیس کا رخ کرتا، شاید قسمت ساتھ دے اور اسکے بھی حالات سنور جائیں، گھر اور گھر والوں کو خیر آباد کہتے ہوئے چل پڑا اور جانے کہاں کہاں کا سفر کرکے اٹلی پہنچا، اب یہ ایک بے روزگار اور غیر قانونی تارکین وطنوں میں سے ایک تھا، کسی نے مشورہ دیا ہوگا اور پھر دل پر جبر کرکے اپنے ہی ملک کے
خلاف مقدمہ کرکے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی کوشش کی۔
اچانک طبیعت خراب ہونے پر ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ معلوم ہوا کہ پھیپھڑے کام نہیں کررہے۔ ڈاکٹرز نے آپریشن کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔اور وہ آپریشن ٹیبل پر ہی جان بحق ہوگیا۔
کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے۔ کل رات گئے کسی کو علم ہوا کہ Treviso میں ایک پاکستانی فوت ہوگیا ہے۔
وہ کون ہے کوئی پتا نہیں۔ آج علم ہوا کہ اسکا نام نوازشاہ تھا اور اسکا تعلق حافظ آباد سے تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔