ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار, اپریل 17, 2022

ہم پاکستانی اور پاکستان کا مقصد

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی بہت ہی اچھے، خوش اخلاق، معتدل مزاج اور پر امن لوگ ہیں۔

یہ چیز ہمارے خطہ وادئی سندھ کا امتیاز بھی ہے۔ اس زرخیز خطہ ارض کے باسیوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات ہروقت دستیاب ہوتی ہیں۔ زمین ہے جو غلہ اور پھل پھول سارا سال اگاتی ہے اور جانور سارا سال سبز چارہ چرتے ہیں۔ جس سے دودھ اور گوشت کی فراوانی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے پنیر و خشک گوشت کا رواج نہیں ہے۔

 بڑے بڑے دریا اور جھیلیں ہیں جن میں مچھلیاں اور پرندے بھی اٹھکیلیاں کررہے ہوتے ہیں۔ پس فرصت کے وقت میں شکار کے مواقعے بھی من چلوں کےلئے میسر ہوتے ہیں۔

ایسے میں کس کا دل کرے گا فسادات کرنے کو۔ یا جنگیں کرنے کو۔  

بلکل اگر آپ جدید معلوم تاریخ جیسے برطانوی راج، مغل ایرا، افغان و ایرانی زمانے، مقامی راجپوتوں کے دور سکندر یونانی و پورس کی تاریخ یا قدیم کم معلوم تاریخ جیسے ٹیکسلا کا دور، ہڑپہ و موہنجوداہڑو کے زمانے, گندھارا کی تاریخ میں رائے گپتا ساسان یا کشان ادوار ہوں، یا پھر چھتری کے نام سے آنے والے راجپوتوں  کا دور۔  یہ سب سکون اور معاشرت کے ادوار ہیں۔ تعمیر اور ترقی کے ادوار ہیں۔  میرے شہر جہلم میں قلعہ روہتاس، منگلا قلعہ، ٹلہ جوگیاں، قلعہ بدلوٹ، چوہاسیدن شاہ، کٹاس راج ، پنڈدادنخان میں قلعہ نندنہ کے علاوہ بہت سے کھنڈرات موجود ہیں اور انکے علاوہ پورے پاکستان میں  جگہ جگہ بکھرے ہوئے آثار قدیمہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ اس خطہ میں  سکون اور معاشرت ، تعمیر اور ترقی، ہنر و فنون کے بہت سے ادوار گزرے ہیں۔

ان سب ادوار میں ایک بات جو مشترک ہے وہ یہ ہے کہ اس خطہ پر باہر سے حملے تو ہوئے  لیکن  اس خطے کے لوگوں نے کبھی بھی دوسرے علاقوں پر حملہ نہیں کیا۔ اس کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جب گھر میں کھانے کو سب کچھ ہے تو پھر جھگڑے کا مقصد ہی کوئی نہیں۔ اسکے برعکس باہر سے جو بھی  حملہ آور آئے وہ ادھر ہی بس گئے۔ اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ کہ یہاں پر زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا آسان ہے۔ مقامی لوگوں کے جھگڑالو نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں نے حملہ آوروں کو بھی خوش آمدید کہا اور انکے ساتھ معاشرت کی۔   ہاہم  میل جول اور سکون کا ماحول رہا۔

کسی بھی خطے میں تب تک ترقی نہیں ہوسکتی جب تک سکون اور معاشرت نہ ہو۔ امن اور چین نہ ہو۔

ہمارے اس علاقے کے لوگ نسل پرست بھی نہیں ہیں۔ سب سے گھل مل جاتے ہیں  پاکستان کا بڑا زرخیز علاقہ پنجاب ہے جہاں پر آپ کو ہر نسل اور رنگ کا باشندہ ملے گا۔ راجپوت، جاٹ،  گجر سید افغان    ان سب کی بستیاں کی بستیاں آباد ہیں یہ سب پنجابی بولتے ہیں اور اپنے آپ کو پنجابی ہی کہتے ہیں۔ دور کی بات نہیں   1800 کے آخر میں کشمیر سے ہجرت کرنے والے لوگ ہوں یا 1947 میں انڈیا سے ہجرت کرنے والے لوگ ہوں یا پھر 1970 کے بعد افغانستان سے آنے والے مہاجرین ہوں یہ سب ادھر ہی کے ہوکے رہ گئے۔

اس ساری تاریخ میں ہمیں مقامی نسل پرستی پر مبنی فسادات یا قتل عام کی خبر نہیں ملتی۔

پاکستان کی گزشتہ   تاریخ میں آپ کو ایک بار بھی عوامی سطح پر کسی فساد یا ماردھاڑ کی تاریخ  نہیں ملے گی۔ اگر کچھ واقعات ملتے بھی ہیں تو وہ محدود پیمانے پر ہیں اور انکی وجہ بھی بیرون ملک سازشی عناصر کی کاروائیاں ہیں۔ جیسے بلوچستان میں ہونے والے فسادات، کراچی میں ایم کیو ایم کی دھشت گردی یا پھر طالبان  کی وجہ سے ہونے والی دھشت گردی کی لہر۔ اس میں اگر دیکھا جائے تو پاکستانی عوام ملوث نہ تھی بلکہ الٹا نشانہ بنی۔

اس وقت حال یہ  ہے کہ عوام ایک دوسرے کے خلاف ہوئی پڑی ہے۔ ہمارے گاؤں کا ایک وھاٹس اپ گروپ ہے وہاں پر سارے ہی لوگ ہیں بہت ہی احترام اور سکون سے رہنے والے۔ ایک دوسرے کا احترام کرنے کا ماحول ہے۔ ادھر بھی کچھ پی ٹی آئی کے لوگ مچھر ے ہوئے تھے۔ کچھ پوسٹیں دوسری طرف سے بھی آئیں تو کسی کو کہنا پڑا  کہ یار بس کردیو۔ خدا  دا ناں منو تے اس گروپ نے نان پولیٹیکل ہی رہنڑں دیو۔ چنگا وائی۔

اب حالت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ دوسروں کی پوسٹ پر جا جا کر بحث کرتے پھرتے ہیں۔ منہ ماری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


بندہ پوچھے بھائی جان آپ کے اوپر کوئی وحی نازل ہوئی ہے کہ سب حق سچ آپ کے پاس ہی ہے۔ دوسروں پرآ پ کی ہر بات ماننا فرض ہے ورنہ انکے خلاف فتویٰ لگ جاوے گا۔

اس وقت جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اور پھر جو فسادات پنجاب اسمبلی میں ہوئے ہیں اور جو زبان سابقہ عمرانی حکومت کے وزراء اور مشراء استعمال کررہے ہیں یہ بلکل ملک میں فسادات ڈلوانے والی ہے کیونکہ یقینی طوپر  انکے مخالفین بھی ایسا ہی کریں گے۔ اگر ایسا ہوا اور مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہوگا تو پھر یہ پوری وادی سندھ کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہوگا کہ عوام آپس میں لڑے گی۔ اور پھر تاریخی روایت کے مطابق یہ بھی باہر سے ہونے والی سازش ہوگی۔

لنڈن پلان یہی تھا کہ ملک میں اتنے فسادات ہوں کہ ملک کا سارا نظام ہی مفلوج ہوجائے اور پھر  کوئی کچھ بھی کاروائی ڈال دے اسکا کچھ سد باب نہ ہوسکے۔ لوگ شکر کریں۔

اصولی بات تو یہ ہے کہ سیاست و ریاست کا ایک ہی مقصد ہے اور ہونا چاہئے اور وہی ہے۔ اور اسی بنیاد پر ہماری بحث و اختلاف ہونا چاہئے۔ کہ


کس نے ریاست پاکستان کے مقصد" عوام کی فلاح و بہبود  "کو پورا کرنے کےلئے کس حد تک کاوش کی  جو آئین پاکستان میں درج ہے۔ آئیں ہم سب اپنی اپنی رائے اور سوچ ، فکر و علم کے مطابق یہ کوشش کریں کہ ہماری پسندیدہ پارٹی اور حکومت ریاست  کے قیام کے مقصد  کے حصول کے لئے زیادہ کوشاں دکھائی دے۔

آئین پاکستان کی ابتداء میں ریاست کا تعین اور اسکا مقصد بیان کیا گیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور

تمہید، صفحہ نمبر دو:

تاکہ  اہل پاکستان  فلاح و بہبود حاصل کرسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کرسکیں اور بین الاقوامی امن اور بنی نوع انسان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں