فیس بک پر ایک تصویر چلتی دیکھ کر جھٹکا سا لگا اور دماغ میں کچھ تاریخی حقائق فلیش ہونے لگے، کچھ چیزیں جو دیکھی تو نہیں مگر سنی ضرور تھیں، کچھ چیزوں جو ہمیں آج بتائی جاتی ہیں مگرانداز کچھ اور ہے، یہ تصویر نہیں بلکہ تحریر تھی جو تصویری فارمٹ میں کہ فوراُ پڑھی جاسکے گھوم رہی ہے، نیچے کومینٹس پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، کومنٹس ادھر لکھنا طوالت کو دعوت دینا ہوگا مگر تصویر کا لگانا خارج از دلچسپی نہ ہوگا۔ یہ تحریر ایک صاحب محمد عابد علی خان کی ہے جو ایم کیو ایم کے پالیمنٹیرین رہ چکے ہیں، بقول انکے اپنے۔
پانڈے قلعی کروالو کا نعرہ اب معدوم ہوگیا ہے، جب ہم چھوٹے تھے تو آئے دن گلی میں یہ نعرہ سننے کو ملتا کہ، پانڈے قلعی کروالو، ہماری دادی بھگاتیں ہمیں جا پتر، اس پہائی کو روک اور وہ پہائی گلی میں شہتوت کے نیچے ہی اپنے چولہا جما لیتا اور پورے پنڈ کی عورتیں اپنے پہانڈے قلعی کروارہی ہوتیں ، یہ ایک فن تھا جو بہت سے دوسرے فنون کے ساتھ خود ہی ترقی کی نذر ہوکر آپ موت مرگیااپنی موت، مگر تھا بہت کمال کا فن کہ پرانے دیگچے اور دیگر دھاتی برتن دئے جاتے اور وہ انکو قلعی کردیتا اسطور پر کہ نئے معلوم ہوتے، مگر ہوتے تو وہی تھے پرانے ہی ، جو ٹیڑھا تھا تو رہے گا، جس دیگچی کا کنارا تڑخا ہوا تھا تو وہ رہے گا۔ حتٰی کہ اگر کوئی ایسا برتن بھی چلا گیا جس میں سوراخ تھا تو وہ بھی باقی رہے گا مگر چم چم کرتے ہوئے، اور آنکھوں کو خیرہ کرتے ہوئے، لشکارے مارتے ہوئے۔ یعنی پرانے کا پرانا مگر چمک نئی۔
کچھ یہی حال ہماری حکومت کا بھی ہے کہ صوبے بنوالو، کوئی پوچھے میاں پہلے جو پانچ چھ بشمول آزاد کشمیر کے بنے ہوئے ہیں ان کی حالت تو بہت پتلی ہےوہ تو سنبھالنے سے تم لوگ قاصر ہو اور یہ کہ نئے بنا کر کیا کرلوگے، برتن قلعی ہوکر نیا تو نہیں ہوجاتا، بھلے
چمک اس میں آجاتی ہے، رہے گا تو وہی، ہے پرانا ہی جس میں چھید بھی ہیں اور جسکے کنارے ٹوٹے ہوئے بھی ہیں ،
جب یہ صوبہ صوبہ کی کت کت شروع ہوئی تھی تو میرا خیال تھا اوراب بھی ہے یا تو اس بحث پر پابندی لگا دی جائے یا پھر ہر محلے کا اپنا صوبہ بنا دیا جائے کہ جا میرا پتر کھیل اپنے صوبے سے۔ ایم کیو ایم پر تو مجھے پہلے ہی شک تھا کہ یہ سارا فساد اسی نے پھیلایا ہوا ہے کہ آج پشتون صوبہ بنے گا، کل ہزارہ، پرسوں سرائیکی اور چوتھ مہاجر ، سچ کو سامنے آتے دیر نہیں لگتی، بقول ہمارے چچا ضیاءاللہ خاں ، عشق ، مشک اور کھرک چھپائے نہیں چھپتے،۔
ایک اور تاریخ قسم کا سوال میرے دماغ میں کلبلا رہا ہے وہ یہ کہ 1963 میں بھٹو وزیر خارجہ بنا اور تب وہ جنرل ایوب خان کا دست راست وہ مشیر خاص تھا، 1967 میں پی پی پی کو عوام میں جاری کیا گیا 1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کی اکثریت کے باوجود ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا اور بن گیا مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش، جمہوریت اور بچہ جمہورا کھیلتےہوئے بابائے جمہوریت پاکستان کے پہلے اور واحد سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹیرٹر بن گئے۔
کیا یہ ایک تاریخی اتفاق ہے کہ اب پھر جب صوبہ صوبہ کھیلا جارہا ہے اور ادھر تم اور ادھر ہم کا نعرہ لگ رہا ہے تو پی پی پی کا ہی دور حکومت ہے اور اتفاق سے انکو زمام حکومت سنبھالئے کچھ برس بھی بیت گئے ہیں۔ ابھی گیلانی صاحب اپنے وزارت اعلٰی پکی کرنے کے چکر میں پنجاب کو تو تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر کل کو مہاجر کراچی بھی لے اڑیں گے، میرےمنہ میں خاک، تقسیم پاکستان کی سازشیں تو لگاتار ہورہی ہیں اگر اس ماندہ پاکستان کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تو باقی کیا بچے گا۔ پہانڈے قلعی کروانے سے وہ تو نئے نہیں ہوتے اور نہ صوبے بنانے سے ملک کے حالات تبدیل ہونے والے ہیں، ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ملک کے اندر سے رشوت، اقرباپروری،بدامنی، ناانصافی، جہالت اور غربت کے خلاف محاظ بنایا جائے، یہ چیزیں جس معاشرے سے بھی نکل گئی ہیں وہ پر سکون ہوگیا ہے، چاہے وہ سعودیہ کی بادشاہت ہو یا امریکہ کا صدارتی نظام ، چاہے جرمنی کی چانسلری کا سسٹم ہو کہ ہالینڈ کی جمہوریت۔ اس سے عوام کو جو جمہور کہلاتی ہے کوئی مطلب و اعتراض نہ ہوگا۔
مہاجر صوبے کی کوئی بات تو کرے الطاف بھائی پتہ کاٹ دیں گے اُس کا
جواب دیںحذف کریںبھائی جان آپس کی بات ہے ادھر جنوبی پنجاب کے الگ صوبے کے تو ہم بھی حامی ہیں
جواب دیںحذف کریںمعافی دے دیں آئندہ بھی حامی رہیں گے :)
پر اس سے قطع نظر پوری دنیا میں یہ انتظامی مسئلہ ہے اور ہمارے ہاں فقط مسئلہ حسب معمول
حضرت مسئلہ جنوبی پنجاب کا نہیں ہے مسئلہ لسانی تقسیم ہے، انتظامی طور پرآپ جو مرضی کرو، بھلے ہر کمشنری کو صوب بنا دو، بہت اچھا ہے، مگر جس کام کے پیچھے بدنیتی شامل ہو اسکا انجام نیک کیسے ہوگا
جواب دیںحذف کریںواقعی سب سے بہتر یہی ہے کہ ہر کمشنری کو صوبہ بنا دیا جائے۔ میں تو کب کا کہہ رہا ہوں پر ہماری کوئی سنے تو
جواب دیںحذف کریںجاپان کے 47 صوبے ہیں، کمشنریاں ہی ہیں اصل میں۔ یہی کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔
جواب دیںحذف کریںنئے صوبے بننے چاہئیے میرے خیال سے ملک ترقی کرے گا۔ لیکن ایسے صوبے لسانی بنیادوں پہ قطعا نہیں بننے چاہئیے بلکہ انتظامی بنیادوں پہ الگ صوبے بنانے چاہئیے
جواب دیںحذف کریںآپ کا خیال درست ہے لیکن لُٹیروں کو چاہیئے لُوٹنے کی کھُلی چھٹی اور لُٹیروں کا وطن کوئی نہیں ہوتا ۔ جس طرح پرانے زمانے میں مشہور تھا کہ لائیلپور (اب فیصل آباد) میں کسی طرف سے بھی جاؤ سامنے گھنٹہ گھر ۔ اسی طرح کسی بُرائی کی جڑ تک پہنچیں تو سامنے ذوالفقار علی بھٹو یا پیپلز پارٹی ہی ہو گی
جواب دیںحذف کریںدس قدم آگے جاو، آٹھ قدم پیچھے آ جاو، سفر بھی طے ہوتا رہے گا، حکومت پر دباو بھی رہے گا لہذا شارٹ ٹرمز فواید بھی حاصل ہوتے رہیں گے اور چونکہ سفر جاری ہے، لہذا منزل تو ملنی ہی ہے اور وہ بھی انہیں جن کا نعرہ ہے کہ "ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے"، ویسے آپ کی اطلاع کے لیے بےشمار "خالص" کراچی والے پنجاب منتقل ہونے کی تیاریاں کر رہے ہیں-
جواب دیںحذف کریںاکبر
میرے بھائیو،
جواب دیںحذف کریںپاکستان میں کوئی بھی مھاجرنھیں ھے پاکستان میں رھنے والے سب پاکستانی ھیں اورآپس میں بھائی بھائی ھیں۔
توپھرمھاجر صوبہ کس کو چاھیے؟
مہاجر نہیں تحدہ تو ہے نہ بھائی؟
جواب دیںحذف کریںمہاجر صوبے کے نعرے کی وجہ یہ ہے کہ وزارت قانون کی طرف سےسندھ میں کوٹہ سسٹم میں بیس سال توسیع کے لیئے سمری وزیر اعظم کو بھیجی گئی ہے کیونکہ کوٹہ سسٹم کے نظام کی معیاد جلد ختم ہونے والی ہے ۔ جس کےبعد کوٹہ سسٹم میں مزید توسیع کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر قانون مولا بخش چانڈیو سمجھتے ہیں کہ کوٹہ سسٹم میں بیس سال توسیع ہونی چاہئیے ۔اس پر اردو اسپیکنگ (مہاجروں) نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی ہر دور میں ایسے متنازع مسائل سامنےلاتی ہے ۔ اگر کوٹہ سسٹم میں مزید توسیع دی گئی تو سندھ میں مہاجر صوبے کی تحریک چل سکتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی اس تحریر سے پنجابی تعصب کی بو آتی ھے۔۔
جواب دیںحذف کریںہم نے پنجابی تعصب کیا کرنا ہے، ہم تو غاصبین میں سے ہیں جس سے پوچھو کہ پنجاب کھا گیا ہے، بھئی کیا کھا گیا ہے یہ کبھی نہیں بتایا گیا، پنجاب میں شعور اور علم کچھ زیادہ ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی نسبتاُ کم ہے، ابھی ملک کا 89 فی صد زرمبادلہ بیرون ملک پاکستانی بھیج رہے ہیں جکا 99 فیصد پنجابی ہیں، اسکو بھی آپ تعصب ہی کہہ لو پھر ۔
جواب دیںحذف کریںلگے رہوجناب، بہت اچھے
جواب دیںحذف کریںڈاکٹر سمیر
١۔اسلام آباد تے کراچی وچ اردو یونی ورسٹی ھے پئی۔ہک سرائیکی میڈیم :سرائیکی یونیورسٹی برائے صحت انجینئرنگ تے سائنس آرٹس ٻݨاؤ جیندے کیمپس ہر وݙے شہر وچ ھوون۔
جواب دیںحذف کریں٢.۔ تعلیمی پالسی ݙو ھزار نو دے مطابق علاقائی زباناں لازمی مضمون ھوسن تے ذریعہ تعلیم وی ھوسن۔ سرائیکی بارے عمل کرتے سرائیکی کوں سکولاں کالجاں وچ لازمی کیتا ونڄے تے ذریعہ تعلیم تے ذریعہ امتحان بݨاؤ۔
٣۔سرائیکی کوں قومی زبان تے سرکاری زبان دا درجہ ݙیوو.۔
۔٤۔ نادرا سندھی وچ وی شناختی کارڈ جاری کریندے، سرائیکی وچ وی قومی شناختی کارڈ جاری کرے۔
٥۔ ھر ھر قومی اخبار سرائیکی سندھی تے اردو وچ شائع کیتا ونڄے۔کاغذ تے اشتہارات دا کوٹہ وی برابر ݙتا ونڄے۔
٦۔ پاکستان دے ہر سرکاری تے نجی ٹی وی چینل تے سرائیکی، سندھی، پشتو ، پنجابی،بلوچی تے اردو کوں ہر روز چار چار گھنٹے ݙتے ونڄن۔
٧۔سب نیشنل تے ملٹی نیشنل کمپنیاں سرائیکی زبان کوں تسلیم کرن تے ہر قسم دی کسٹومر سروس، تحریر تے تشہیر سرائیکی وچ وی کرن۔
٨۔۔سرائیکی ہر ملک وچ وسدن ایں سانگے سرائیکی ہک انٹر نیشنل زبان اے۔ سکولاں وچ عربی لازمی کائنی ، تاں ول انگریزی تے اردو دے لازمی ھووݨ دا کیا ڄواز اے؟۔
اسلام علیکم میں تو اس بات سے متفق ہوں کہ پاکستان میں پہلے چند ایک انتظامی یونٹ ہیں ۔جن کو صوبے کا نام دیا گیا جن میں پنجاب سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے علاوہ اب ایک نیا علاقہ گلگت بلتستان کے نام سے وجود میں آگیا ۔او اب مزید صوبے بنوانے کی بات کی جا رہی ہے ۔جو کہ میر خیال میں ایک ذاتی ضد بازی اور لسانیت کی بنیاد پر لگ رہی ہے ۔پہلے تو بات یہ ہے کہ نیا صوبہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔لیکن اگر با لفرض نیا سوبہ بنانے کی ضرورت پڑ جائے تو ان کو انتظامی لحاظ اور عوام کی سہولت کو دیکھ کر بنایا جائے تاکہ نیا صوبہ بننے کے بعد عوام کو بھی کوئی فائدہ ہو ۔یہ نہ ہو کہ ان کو کوئی فائدہ نہ ہو اور صرف اشرافیہ ہی اس کے ثمر سے فائدہ اٹھائے ۔پنجاب کی تقسیم کرکے جنوبی پنجاب کے عوام کو فائدہ تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن پھر سندھ اور بلوچستان کے سرحدی عوام کا کیا قصور کہ ان کو تو وہ سفر پھر بھی کرنا پڑا جو وہ پہلے کرتے تھے اس لئے عوام کا خیال بھی رکنا ضروری ہے کہ ان کا بھی فائدہ ہو
جواب دیںحذف کریں