ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات, جولائی 22, 2010

رات کو دیر سے گھر جانا

پاکستان میں تھے تو پرھنے کے دنوں میں صرف پڑھا جاتا اور ویک اینڈ پر اور چھوٹیوں میں رات رات بھر پہلے تو چھپن چھوتی (چھپنا ڈھونڈنا) اور پھر تاش کی بازیاں لگیں یار لوگ اپنی بیٹھک میں یا فارم پر یا کسی اور دوست کی بیٹھک میں تاش کےلئے براجمان ہوتے اور پھر بانگ سحر پر بھاگ لیتے، کہ بہت دیر ہوگئی ہے ماں جی سے چھتر پڑیں گے اور یہ کہ آئیندہ سے جلدی گھر جایاکریں گے، یعنی رات ایک بجے، چھتر واقعی پڑتے کہ باوجود کوشش کے کہ ماں جی کو پتہ نہ چلے دابے پاؤں چلتے مگر وہ پہلے ہی سے جاگھ رہی ہوتیں، اور بس اتنا اعلان کرتیں کہ کجنرا اس ویلے ایا ہیں، سوجا، سویرے تیرا مکو ٹھپساں(خبیث تم اس وقت آئے ہو، ابھی سو جاؤ، صبح تجھے چھترول ہوتی ہے) اور پھر صبح منہ چڑھا کر دن چڑھے جب اٹھتے اور ناشتہ کے بعد اماں سے تین چھتر اور بیس گالیاں پڑتیں۔ دوسرے دن جاتے ہیں منڈلی کو کہتے کہ بھی میں تو بارہ بجے گھر چلا جاؤں گا کہ آج بہت بےعزتی خراب ہوئی ہے۔ پس اس دن بھی جب بازیاں لگ جاتیں تو شاہ جی میرے ساتھی ہوتے اور ارشد مودی اور نیدی ہمارے مخالف، دیکھنے والے بھی پانچ ساتھ ہوتے اور یہ ساری کابینہ تھی، فیصلہ ہوتا کہ اگر تم نے جلدی جانا تو مخالفوں کو کوٹ کرو، مگر کوٹ تھا کہ ہوکر نہ دیتا اور ہم پھر تین بجے باقیوں کے ساتھ گھر جاتے اور اگلے دن پھر چھتر کھاتے۔ بہت سالوں بعد یہ روایت چلتی رہی، کابینہ کے بندے اکثر دوسرے شہروں میں پڑھنے اور ملازمت کرنے چلے گئے بشمول ہمارے مگر ویک اینڈ پر سارے گھر اور پھر وہی جمعہ کو چھتر و چھتری۔ حتٰی کہ جب ہم کالج میں لیکچرار تھے اور ایک شام کا کلینک بھی تھا تب بھی یہی روٹین رہی۔ مگر پھر صرف گالیاں پڑتی تھیں۔ عرصہ سے اٹلی میں براجمان ہیں تو یہاں پر بھی ایسے ہی رہا، رات کو جاگنے کی عادت نہ گئی، پہلے سال پڑھتے رہے اور پھر دوستوں کے ساتھ شام کو باہر نکلنا مگر یہاں پر رات کو جس وقت بھی آؤ پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا بھلے نہ آؤ، روم میٹ کو کیا؟ اور جب پوچھنے والے گھر پر ہوں تو ہمیں باہر کیوں جانا ہے۔

3 تبصرے:

  1. ہمارے والد صاحب کا حکم تھا جہاں بھی جاؤ کام ختم کر کے مغرب تک گھر پہنچو ۔ اگر کسی ضروری کام سے دير ہونے کا احتمال ہو تو بتا کر جاؤ کب واپس آؤ گے ۔ ہم نے تو اسی پر عمل کيا

    جواب دیںحذف کریں
  2. ہم تو آج تک مانتے ہیں کہ ماں کی یہی پابندی ہماری کامیابی کا سامان بنی۔ اگر ماں ہمارے لیٹ آنے پر ہمیں سرزنش نہ کرتیں اور والد سے نہ پٹواتیں تو آج ہم بھی کہیں کبوتر بازی کر رہے ہوتے، کتے لڑا رہے ہوتے اور درجن بھر بچے پیدا کر کے ان کا سیاپا کر رہے ہوتے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. اج تک یه رسم ہے که رات هوتے هی گھر کی راھ لیتے هیں ، که بچپن سے عادت سی هو گئی
    لیکن عجیب سا لگتا تھا شروع دنوں ميں کسی خاتون دوست کے ساتھ چلتے هوئے ، اچانک تراھ سا نکل جاتا تھا که ابا جی ناں دیکھ لیں کہیں ـ

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں