پاکستان میں تھے تو پرھنے کے دنوں میں صرف پڑھا جاتا اور ویک اینڈ پر اور چھوٹیوں میں رات رات بھر پہلے تو چھپن چھوتی (چھپنا ڈھونڈنا) اور پھر تاش کی بازیاں لگیں یار لوگ اپنی بیٹھک میں یا فارم پر یا کسی اور دوست کی بیٹھک میں تاش کےلئے براجمان ہوتے اور پھر بانگ سحر پر بھاگ لیتے، کہ بہت دیر ہوگئی ہے ماں جی سے چھتر پڑیں گے اور یہ کہ آئیندہ سے جلدی گھر جایاکریں گے، یعنی رات ایک بجے، چھتر واقعی پڑتے کہ باوجود کوشش کے کہ ماں جی کو پتہ نہ چلے دابے پاؤں چلتے مگر وہ پہلے ہی سے جاگھ رہی ہوتیں، اور بس اتنا اعلان کرتیں کہ کجنرا اس ویلے ایا ہیں، سوجا، سویرے تیرا مکو ٹھپساں(خبیث تم اس وقت آئے ہو، ابھی سو جاؤ، صبح تجھے چھترول ہوتی ہے) اور پھر صبح منہ چڑھا کر دن چڑھے جب اٹھتے اور ناشتہ کے بعد اماں سے تین چھتر اور بیس گالیاں پڑتیں۔ دوسرے دن جاتے ہیں منڈلی کو کہتے کہ بھی میں تو بارہ بجے گھر چلا جاؤں گا کہ آج بہت بےعزتی خراب ہوئی ہے۔ پس اس دن بھی جب بازیاں لگ جاتیں تو شاہ جی میرے ساتھی ہوتے اور ارشد مودی اور نیدی ہمارے مخالف، دیکھنے والے بھی پانچ ساتھ ہوتے اور یہ ساری کابینہ تھی، فیصلہ ہوتا کہ اگر تم نے جلدی جانا تو مخالفوں کو کوٹ کرو، مگر کوٹ تھا کہ ہوکر نہ دیتا اور ہم پھر تین بجے باقیوں کے ساتھ گھر جاتے اور اگلے دن پھر چھتر کھاتے۔
بہت سالوں بعد یہ روایت چلتی رہی، کابینہ کے بندے اکثر دوسرے شہروں میں پڑھنے اور ملازمت کرنے چلے گئے بشمول ہمارے مگر ویک اینڈ پر سارے گھر اور پھر وہی جمعہ کو چھتر و چھتری۔ حتٰی کہ جب ہم کالج میں لیکچرار تھے اور ایک شام کا کلینک بھی تھا تب بھی یہی روٹین رہی۔ مگر پھر صرف گالیاں پڑتی تھیں۔
عرصہ سے اٹلی میں براجمان ہیں تو یہاں پر بھی ایسے ہی رہا، رات کو جاگنے کی عادت نہ گئی، پہلے سال پڑھتے رہے اور پھر دوستوں کے ساتھ شام کو باہر نکلنا مگر یہاں پر رات کو جس وقت بھی آؤ پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا بھلے نہ آؤ، روم میٹ کو کیا؟ اور جب پوچھنے والے گھر پر ہوں تو ہمیں باہر کیوں جانا ہے۔
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعرات, جولائی 22, 2010
Home
Unlabelled
رات کو دیر سے گھر جانا
رات کو دیر سے گھر جانا
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
ہمارے والد صاحب کا حکم تھا جہاں بھی جاؤ کام ختم کر کے مغرب تک گھر پہنچو ۔ اگر کسی ضروری کام سے دير ہونے کا احتمال ہو تو بتا کر جاؤ کب واپس آؤ گے ۔ ہم نے تو اسی پر عمل کيا
جواب دیںحذف کریںہم تو آج تک مانتے ہیں کہ ماں کی یہی پابندی ہماری کامیابی کا سامان بنی۔ اگر ماں ہمارے لیٹ آنے پر ہمیں سرزنش نہ کرتیں اور والد سے نہ پٹواتیں تو آج ہم بھی کہیں کبوتر بازی کر رہے ہوتے، کتے لڑا رہے ہوتے اور درجن بھر بچے پیدا کر کے ان کا سیاپا کر رہے ہوتے۔
جواب دیںحذف کریںاج تک یه رسم ہے که رات هوتے هی گھر کی راھ لیتے هیں ، که بچپن سے عادت سی هو گئی
جواب دیںحذف کریںلیکن عجیب سا لگتا تھا شروع دنوں ميں کسی خاتون دوست کے ساتھ چلتے هوئے ، اچانک تراھ سا نکل جاتا تھا که ابا جی ناں دیکھ لیں کہیں ـ