ہمارے پردیسی بہت حساس ہوتے ہیں اور بہت کمزور دل بھی ہم لوگ جو ملک سے باہر ہوتے ہیں ہمیں ساری چیزوں کا پتہ بھی نہیں ہوتا، یعنی لاعلمی اور کم علمی، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو ادھوری معلومات ہمارے پاس ہوتی ہیں، ہم ان پر ہی پوری اپنی عمارت سوچ کی تعمیر کر لیتے ہیں۔
اج ایک دوست سے ملاقات ہوئی، سلاما لیکم، کوئی ویڈیو دیکھ رہے تھے، بہت پریشان، دکھی۔
پوچھا کیا حال ہیں؟ جواب ملا کیا حال ہونا ہمارا, یار ڈاکٹر صاحب، ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟ میں نے کہا جی کیا ہوا؟ کہنے لگے سر جی جو قتل عام اسلام اباد میں جو ہوا ہے, ظالموں نے دو سو 80 بندے مار دیے،
کوئی اس طرح بھی کرتا ہے اپنے لوگوں کے ساتھ؟
تقریبا ان کے انسو نکل رہے تھے۔
اواز میں بے شمار درد تکلیف جیسے کوئی اذیت میں مبتلا ہو ۔
میں نے کوشش کی ان سے پوچھنے کی، کہ اپ نے کوئی ویڈیو دیکھی، اس قتل عام کی؟ جواب ملا, نہیں ان ظالموں نے لائٹیں ہی بند کر دی تھیں، اندھیرا کر دیا تھا،
پوچھا پھر کوئی ویڈیو دیکھی؟ کوئی تدفین؟ کی جنازے کی؟
کہنے لگے: کیا تدفین؟ کیا جنازہ؟ ظالموں نے سب کو ساڑ ہی دیا.
تو پھر
اپ کو کیسے پتہ چلا کہ اتنا قتل عام ہوا؟ اتنے بندے؟ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب خدا کا خوف کرو، اپ نے بھی کل مرنا ہے، رب کو جان دینی ہے، اتنا سخت دل نہ کرو کہ دوسروں کی موت پر بھی سوال اٹھاؤ۔
میرے پاس سوائے اس کے کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ چنگا جناب مینو ہونڑں اجازت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔