سیالکوٹ کے المناک انسان سوز واقعہ کو دماغ سے نہیں نکالا جارہا، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم اپنی معاشرتی، مذہبی اور سماجی اقدار کو قطعی طور پر فراموش کرچکے ہیں۔ پولیس کی موجودگی میں دو انسانوں کا پر تشدد اور بے رحمی سے قتل عام، وہاں پر موجود لوگوں کی بے حسی اور اسے انجوائے کرنا، لاشوں کی بے حرمتی، سب دیکھ کر اس میں کراچی کی ٹارگٹ کلنگ، نو گو ایریاز، سیلاب زدگان کی زبوں حالی اور انکا غصہ، عوامی بے حسی سب ملاکردیکھیں تو لگتا ہے کہ کل کلاں سیلاب زدگان بھی اپنی بدحالی پر پریشیانی کی بجائے غصہ کو اپنائیں گے۔ ایسی صورت میں ملک میں افرا تفری ہوگی اور پھر امریکن یورپی اور دیگر دنیا کے نام نہاد علمبردار ہماری معاشری حالت کو سدھارنے اور امن قائم کرنے کو آوارد ہونگے۔
خاکم بدہن
Post Top Ad
Your Ad Spot
اتوار, اگست 22, 2010
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
آپ کی بات بالکل بجا ہے۔ جب انسان ہر طرف سے مایوس ہوجائے تو وہ نہ دین کی پابندی کرتا ہے نا انسانیت کا احترام کرتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںہم تو اس جنگل کے قانون کے عادی ہو چکے ہیں
جواب دیںحذف کریں