میری دوست لوچیانا کا خیال تھا کہ اگر ہم لندن گے اور مایا کا سر نہ دیکھا تو پھر کیا دیکھا اور یہ کہ ایک دفعہ دیکھا تو پھر دیکھتے ہی رہ جاؤ کے اور یہ بھی کہ یہ کسی پرانے خناس قسم کے جادو گر کا ہے جو مرکربھی آپ کے حواس پر چھا جاتا ہے۔ مجھے خود بھی مایا سے بہت لگاؤ ہے، بس جی چاہتا ہے کہ بہت سی مایا جمع ہو، پھر کچھ ہو یا نہ ہو۔
یوری اور میں خیر سے برٹش میوزیم کے سارے حصوں کا فوری دورہ کرکے جب جنوبی امریکہ کے حصہ میں پہنچے جہاں پر مایا صاحب کا ایک عدد سر موجود تھا تو معلوم ہوا کہ یہ حصہ تو دوپہر کے وقفہ کے سلسلہ میں بند ہے اور تین بجے دوبارہ کھلے گا، شام سات بجے ہماری فلایئٹ کا وقت مقرر تھا اور قائدہ کے مطابق پانچ بجے ادھر سٹین سٹیڈ کے ائرپورٹ پر ہونا چاہئے تھا مطلب ہمارے پاس صرف دو گھنٹے کا وقت تھا کہ ہم نے اسی میں برٹش میوزیم سے والتھم اسٹو پہنچ کر ہوٹل سے اپنا سامان لینا تھا اور پھر وکٹوریہ سے ٹرین پکڑنی تھی۔ خیر دو گھنٹے انتظارکرنا تھا، اس دوران سوچا کہ چلو مصر کے حصہ میں توتن کامن صاحب کے سونے کے ماسک کی ہی زیارت کرلیتے ہیں کہ اتنا سونا ایک ساتھ اور ایک چھت تلے شاید ہے کہیں اور دیکھنا نصیب ہو ، معلوم ہوا کہ ماسک صاحب کو دو ہفتہ قبل مصر کے قائرہ میوزیم میں روانہ کردیا گیا ہے۔ یعنی جہاں کی خاک وہیں کو لوٹی۔ بقول یوری بہت افسوس ہوا اپنے اوپر کہ ہم دو ہفتے پہلے کیوں نہ آئے اور میوزیم والوں پر بھی کہ انہوں نے ماسک کی واپسی جہاں انہوں نے کئی دھائیاں روکے رکھی ہمارا بھی انتظار کرلیتے تو کون سی قیامت برپا ہوجاتی، اس موقع پر ہمیں گورا صاحب کی بے بسی دیکھائی دی کہ دنیا بھر کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود ہماری آمد سے باخبر نہ تھے۔
پھر کیا تھا بھاگم بھاگ مایا صاحب کی طرف لوٹے تو وہاں پر ایک کالی کلوٹی افریقن بیٹھی تھی پہرے پر شاید انکو شک تھا کہ ہم اس کھوپڑی کو چرا کرآلہ دین کے چراغ کی طرح رگڑتے پھریں گے، حالانکہ ہمارے جی میں ایسی کوئی بات نہ تھی، مایا صاحب کی العمروف کھوپڑی کی تلاش شروع ہوئی، ہم کسی جانب مایا جی کو نہ پا کر اس سے پوچھے بغیر نہ رہ سکے، خاتون نہیایت درشت لہجےمیں بولی بلکہ دھاڑی کہ تمھیں معلوم نہیں کہ مایا صاحب کا ایک دانت خراب ہوگیا تھا اور اسی کی مرمت کےسلسلہ میں دو دنوں کےلئے ہسپتال میں داخل ہیں۔ پس اگلے ہفتے آؤ، چونکہ اگلے ہفتے تو درکنار اگلے گھنٹے آنا بھی ممکن نہ تھا، پس ہوگئی بقول لیاقت بھائی کے پھڑلو پھڑلو ، ہم بھاگم بھاگ والتھم اسٹو اور پھر وہاں سے ائیرپورٹ کو کیسے پہنچے ہمیں خود بھی معلوم نہیں، البتہ جب رائین ائر کے جہاز میں اعلان ہو اکہ اپنی سیٹ بیلٹ باندھ لو میں کہ اب تو ہوا کے دوش چلے تو یقین ہوا کہ ملاتو کچھ بھی نہیں مگر ہاتھ سے بھی کچھ نہیں گیا۔
نتیجہ مایا کم ہی کسی کے ہاتھ آتی یا آتا ہے چاہے وہ اردو کی ہو یا ساؤتھ امریکہ والی ہو۔
Post Top Ad
Your Ad Spot
منگل, فروری 15, 2011
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
آپ نے وال ٹھامسٹو کے علاقہ ميں ہند و پاکستان سٹائل ريڑھيوں پر سودہ بکنے کا ذکر نہيں کيا ۔ کيا اب ايسا نہيں ہوتا ؟
جواب دیںحذف کریںمایا صرف مایا کو ملتی ہے اور وہ بھی کر کر لمبے ہاتھ، ہماری قسمت میں ہر طرح کی مایا ممنوع لگتی ہے
جواب دیںحذف کریںآپ کو مایا ملے نہ ملے ہمیں تو ایک دل چسپ تحریر پڑھنے ضرور مل گئی ۔۔۔
جواب دیںحذف کریں