تین سو یورو اور تین بندے
روم ایمبیسی میں پاسپورٹ کی تجدید کی درخواست معمول کےمطابق جمع کروا کر سوچا کہ اب آئے بھی ہیں توایک صاحب جاننے والے ادھر فائیز ہیں انکے دیدار ہی کرتے چلیں، ڈاکٹر سمیر صاحب کہ ہمیشہ کی طرح جلدی میں تھے کے شدید اصرار کے باوجود اندر پیغام بھجوادیا، اور ہمیں انتظار کرنے کا کہاگیا، خیر سے دس منٹ ایک گھنٹہ اور پھر ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد بقول کھلتے کھلتے افسرکھلا کے مصداق موصوف قریشی صاحب نمودار ہوئے کہ اہو لو جی کرلو گل میں ذرا اٹالینز کے ساتھ میٹنگ میں تھا اس لئے دیر ہوگئی، یہ پہلی چکری، یعنی چھوٹا چکر، اپنے دفتر میں لے گئے، خیریت دریافت ہوئی، چائے کا آرڈر دیا گیا اور پھر فرمانے لگے کہ ادھر رہنے کےلئے ضروری ہے کہ آپ اٹالین سیکھیں کہ روزمرہ کی ضرورت ہے میں نے انکو بتایا کہ صاحب میں تو عرصہ سے سکھلا رہا ہوں، فرمانے لگے کہ تو پھر ہمیں بھی سکھلا دیں، اب کے مکری، ہم حیرت زدہ تھے کہ یہ بندہ ایمبیسی میں روم کے اندر تعینات کردیا گیا ہے اور اس کو اٹالین نہیں آتی، خیر تعجب نہیں ہوا کہ یہ صاحب نہ تو اولین میں سے ہیں اور نہ ہی آخرین میں سے ، کہ انکے سابقین بھی صرف انگریزی سے اپنا کام چلاتے رہے ہیں اور چلا رہے ہیں جبکہ برطانوی اور امریکی سفارتخانوں کا عملہ اٹالین بولتا ہے، اٹالین تو درکنار اردو، پنجابی پشتو تک بولتے ہیں اپنے میاں ریمنڈ لاہور والے کی مثال ہی لیجئے۔
افسرانہ انداز میں ارشاد ہوا کہ ہمارے لائق کوئی خدمت، میں نے عرض کیا کہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ میلان میں ڈیجیٹل پاسپورٹ شروع کروادیں کہ سارے پاکستانی تو شمال میں ہیں ان کو سہولت ہو جائے گی، روم کا چھ سو کلومیٹر کا سفر کرنے سے بچ جائیں گے ، تو حضرت یوں گویا ہوئے کہ منصوبہ پاس ہو چکا ہے مگر ابھی وقت لگے گا یہاں پر ایک ہزار یورو کی خریداری کرنی پڑ جائے تو اس کا بل پاس نہیں ہوتا، وغیرہ وغیرہ۔ مکری کیوں کہ ڈیجیٹل پاسپورٹ کے نام پر کون سی توپ چلانی ہوتی ہے، ایک ڈیٹا انٹری کا کمپوٹر، ایک فنگر اسکینر اور ڈیجیٹل کیمرہ ، بس ہوگیا شروع کام۔ اتنا تو ہم تین بندے روم جانے آنے میں خرچ کر چکےہیں اگر ہمیں ہی کہتے تو ان پیسےسے ہی کام چل سکتا تھا کہ ہم نے وہ پیسے سفر کی مد میں بھی تو خرچ کرہی دیے اور منافع کے طور پر 1200 کلو میٹر گاڑی بھی چلائی، پندرہ منٹ کے کام کےلئے
اگر یہ پیسے ہماری جیب میں رہتے تو دو ہی مصرف تھے یا پاکستان جاتے یا اپنی جیب میں رہتے اور جب جاتے تو خود سے ساتھ لے جاتے، کون جانے ہر روز کتنے لوگ روم جانے میں دو تین سو یورو کا نقصان کرلیتے ہیں، مگر یہ تو کچھ بھی نہیں ہم تو تین بندے مروا کر بھی اس سوچ میں ہیں کہ ریمنڈ کو سفارتی تحفظ حاصل ہے کہ نہیں۔ تین سو یورو تو کچھ بھی نہیں
Post Top Ad
Your Ad Spot
ہفتہ, فروری 19, 2011
Home
Unlabelled
تین سو یورو اور تین بندے
تین سو یورو اور تین بندے
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
آخری فقرہ توسب کی جان ہےلیکن یہ بات ہماری عوام کی سمجھ میں توآگئی ہےلیکن حکومت ابھی سوچ رہی ہےکہ کیاکیاجائےکیونکہ انکی امدادبن ہوجائےگی ناں
جواب دیںحذف کریں