میں نے موبائل کو وقت دیکھنے کو جیب سے نکالا تو انجلین کا وھاٹس اپ پر میسج آیا ہوا تھا، کہ
کام سے فارغ ہو کر مجھے فون کرلیا، آجکل
ترقی ہوچکی موبائل فون کی وجہ سے گھڑی ، ڈائیری پین وغیر ہ
سے فراغت ہے، بس فون سے ہی کام چلاتے ہیں تو بس ہر وقت ساتھ ہی ہوتا ہے
اپنے۔ جس دن فون گھر رہ جائے تو بس واپس آ
کر لینا ہوتا ہے ، اسکے سوا اپنی دنیا
ادھوری ہے، ممکن ہے سب کی ہی ہو،
آخر ہم آزادی اور ترقی یافتہ دور سے گزر رہے ہیں۔
انجلین کو فون کیا تو
کہنے لگی کہ تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے ذاتی قسم کی اگر فارغ ہوتو کہیں چل کرے کافی پیتے ہیں۔
ہر ملک کا اپنا اپنا رواج ہے ، پاکستان میں یار باش سیدھا سیدھا کہہ دیتے ہیں
کہ آؤ جی خانجی گپ مارتے ہیں اورگاوں دیہات میں تو چائے کافی کا بھی
ٹنٹہ نہیں پالا جاتا، ادھر کھیتوں کے بیچوں بیچ کسی بنے پر بیٹھ اور ہوگئے شروع ، چاہے تو 3 گھنٹے ادھر ہی گزر
جاویں، خیر پاکستان میں اگر کسی لڑکے لڑکی کو ساتھ باتیں کرتے دیکھ لیں تو سمجھ
لیں کہ بہن بھائی ہیں اگر شکل ملتی ہے تو اگر نہیں تو پھر میاں بیوی ہونگے، تیسری
صورت میں پھر پھانڈا ہی ہے۔ ۔ اسی طرح ملک یونان میں بھی بول دیتے ہیں آؤ جی
گپ لگانے چلیں، مگر اس کی صورت یا تو چہل قدمی ہوگی یا پھر وہی کافی اور بس پھر
گھنٹے ادھر ہی۔
یہ انجلین بھی ایویں ہی ہے، ہرچھوٹی سی بات کا ایشو بنانا اسکے پیچھے بس
ہے، اور باتیں کرنے کی شوقین، فارماسسٹ ہے اور ایک فارمیسی میں کام کرتی ہے، میری
اسکی ملاقات پہلی بار کام کے سلسلہ میں ہی
ہوئی تھی، ہم فوراُ ہی دوست قرار پائے ، میرے لئے بہت معاون ہے، نئے شہر میں جہاں
آپ کا جاننے والا کوئی نہ ہوجسکو آپ کام کے علاوہ مل سکیں یا بات بھی کرسکیں تو ایسے میں جو بھی دوستی کا ہاتھ بڑھائے
وہ ہی سب سے اچھا دوست ہوتا ہے۔کوئی بھی چھوٹا موٹا کام ہو، یا کوئی معلومات چاہئیں ہوں تو بھاگی پھرتی ہے، اور تب دم لے گی جب جان مار کر کام پورا کر نہ لے تو۔ دل کی بہت اچھی ہے۔
میں بمطابق پروگرام سات بجے اسکی فا رمیسی کے سامنے گاڑی میں تھا، کچھ ہی دیر میں وہ بھی آگئی، چہرے سے ہی تھکاوٹ اور مایوسی عیاں تھی، چاؤ، چاؤ اور وہ گاڑی میں میرے ساتھ والی سیٹ پر گر سی پڑی، اسنے حسب عادت سیٹ بیلٹ کھینچا اور ہم شہر کی دوسری طرف کوئی چار کلو میٹر
دور اپنے مخصوص کیفے کی طرف رواں دواں تھے، چھٹی کا وقت ہونے کی وجہ سے گاڑیا ں ہی
گاڑیاں تھیں، ٹریفک بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔
اور ہم لوگ آپس میں باتیں کرتے جارہے تھے، وہ بولے جارہی تھی، میں نے اندازہ لگا لیا کہ
اسکو کام کچھ بھی نہیں تھا، بس بچاری نے دن کی بھڑاس نکالنے کو میرا ساتھ مانگ
لیا۔ اپنی سارے دن کی روداد، گاہکوں کے روئیے ، اپنے دوسرے کولیگز کی رکھائی، پھر
بات ٹریفک کی طر ف چل پڑی ، ہماری گاڑی
کے آگے ایک بس لگی ہوئی تھی جی وہی پبلک
ٹرنسپورٹ والی جو ہر پانچسو میٹر پر رکتی
باقاعدہ اور سواریاں اتارتی چڑھاتی، انجلین کہہ رہی تھی کہ دیکھو سارا دن کام کرنے کے بعد میرے ساتھ یہی
ہونا تھا، آج تو دن ہی بہت برا ہے، میری
تو قسمت ہی پھوٹی ہوئی ہے، اب دیکھو یہ بس
سامنے لگ گئی ہے، گویا ایک دیوار ہی تو بن گئی
ہے ہمارے سامنے، ہمارا اتنا خوبصورت شہر ہے بند ہ اس کا نظارہ بھی نہیں
کرسکتا، بس کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا، ایسے لگ رہا جیسے ہم دو اندھے ہوگئے ہوں
اور سامنے اس پیلی دیوار کے سوائے کچھ
نہیں ہے۔
میں سٹرک کی دوسری طرف دیکھ رہا تھا، ادھر فٹ پاتھ پر ایک
شخص اپنی سفید چھڑی لہراتا ہوا چل رہا تھا، سفید چھڑی کا مطلب یہ شخص نابینا ہے۔ ہماری
گاڑی کھڑی تھی بس کے پیچھے اور بس کھڑی تھی اپنے اسٹاپ پر، شاید سواریاں زیادہ تھیں یا آگے ٹریفک بلاک
تھی، میں
نے انجلین کی توجہ اس نابینا کی طرف دلوائی ، جو فٹ پاتھ کے کنارے ایک
کھمبے کی طرف بڑھ رہا تھا، اسکی زمین
کے اوپر رینگی ہوئی چھڑی جب کھمبے سے مس ہوئی تو تھوڑی اوپر اٹھی اور پھر اس نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر کھمبے کو
محسوس کیا، اور اپنا راستہ بدل لیا۔
میں انجلین سے بغیر سوچے سمجھے کہ اسے کیسا لگے کہہ رہا
تھا کہ دیکھو میڈم ایک ہم ہیں کہ ایک بس سامنے ہے تو اس کو ہی روئے
جارہے، کہ ہمارے سامنے پیلی شیٹ لگ گئی ہے، ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا،باوجود اسکے کہ ہم دائیں بائیں دیکھ سکتے
ہیں، ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں، اور
ایک ایک وہ شخص ہے جس کے سامنے ایک و ہ ہے
جس کے سامنے شاید اندھیری دیوار ہے، صرف
سامنے ہی نہیں چاروں طرف، مگر اسکے چہرے
پر مسکراہٹ ہے، اور ہمارے چہروں پر تناؤ ہے، سچ تو یہ ہے کہ
ہم لوگ ناشکرے ہیں۔ اور بس
ترجمہ، پنجابی سے اردو، بنا مطلب کھیت کی منڈیر، پھانڈا مطلب مارکٹائی پروگرام۔
صد فیصد سچی کل
جواب دیںحذف کریںیعنی گل
جواب دیںحذف کریں”تب دم لے گی جب جان مار کر کام پورا کر نہ لے تو۔ دل کی بہت اچھی ہے۔ “
جواب دیںحذف کریںاور تب تک دم نہیں لیتیں ۔ جب تک جان نہ مار دیں (جان مارتی ہیں دوسرے کی)۔ اسلئیے محترم۔ ذرا بچ کے ۔
راجہ جی! سوال یہ پیدا ہوتا ہے اتنے بڑے اجنبی شہر میں ۔۔ ایک فی میل ہی کیوں دوست اور رہنماء؟
پیدائشی نابینے ہر قسم کے تاثر سے الئیے عاری ہوتے ہیں کہ انھیں بصارت نامی قوت سے کبھی واسطی ہی نہیں پڑا ہوتا۔ اسلئیے وہ رنگوں کے بارے نہیں سوچ سکتے ۔ کہ انہوں نے رنگ دیکھے ہی نہیں ہوتے تو رنگوں کے بارے کیا سوچیں؟۔ پیدائشی نابینوں کو خواب بھی نہیں آتے۔ اسکی بھی شاید یہی وجہ ہے ۔
البتہ ۔ آپ کی سوچ ”ہونے“ اور ”نہ ہونے“ کے بارے درست ہے ۔ واقعی حضرت انسان جو پاس ہے اس کا ادراک نہیں کرتا اور ہر وقت ”تنگ فنگ“ رہتا ہے ۔جبکہ ہم سے کہیں زیادہ کم درجے کے لوگ اپنے حصے کی خوشیاں اس دنیا سے بااہتمام وصول کرتے ہیں۔
جاوید گوندل ، بارسیلونا ۔ اسپین
جناب گوندل صاحب مجھے اندازہ ہوگیا تھا لکھتے ہوئے کہ یہ فی میل والا سوال لازم ہوئے گا ہی ہوئے گا، قصہ کچھ یوں ہے کہ اپنا سارا دن ساتھ ہی میل و فی میل کے ساتھ ہوتا ہے، ہیں جی، اب یہ کوئی پاکستان تو ہے نہین جہاں پر الگ الگ دنیائیں بستی ہیں، ادھر یورپ میں تو جو سااتھ ہے وہ ساتھ ہے، اور پھر پبلک ڈیلنگ والے شعتبہ مین تو کچھ نہ پوچھو۔ باقی آخری فقرے ہی اس ساری پوسٹ کی وجہ ہین، انکو پسند کرنے کا شکریہ،
جواب دیںحذف کریںمحسوسات کا اظہار کمال کے ساتھ۔ آپ جی اس صدی کے شیخ سعدی ہیں۔
جواب دیںحذف کریںسچها واقعہ شیئر کیا آپ نے .کہتے ہیں ہم اپ ے سے کمتر اور مجبور کو دیکهنا چائیے تاکہ ناشکری سے بچے رہیں.
جواب دیںحذف کریںبہت ہی خوبصورت تمثیل میں آپ نے کتنی بڑی بات سمجھا دی ۔ جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ میری ایک مشوق نمبر (دوہزارسم تھنگ (یاد نی ہے)) کہہ رہی تھی
جواب دیںحذف کریںہم (خاص طور پہ تو (یعنی کہ میں (ڈفر))) تو ناشکری کے مادے سے بنے وے
جب کوئی انسان کو بڑی بیماری نہیں ہوتی، تو وہ چھوٹی چھوٹی بیماریوں پر آہ کرتا رہتا ہے اور جب بڑی بیماری لگ جاتی ہے تو وہ ساری چھوٹی بیماریاں بھول جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے موجودہ حالات میں جینے کا طریقہ سیکھنا چاہیے اور اس کے سوا حل بھی کوئی نہیں ہے۔
جواب دیںحذف کریںدل کے تاروں کو جھنجھوڑ ڈالا آپ نے
جواب دیںحذف کریںفَبِأَيِّ آَلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
یعنی ناشکری وہ ذاتی نوعیت کا مسئلہ تھا.
جواب دیںحذف کریںبہت خوب لکھا ، آج ایک بار پھر اپنے ناشکرے پن کا احساس ہوا۔
جواب دیںحذف کریںاور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاوں گے