شمالی اٹلی کے شہر پادوا
(Padova) میں ہم لوگ ڈاکٹر ز کےلئے بنیادی ہومیوپیتھی
کا ایک کورس متعارف کروا رہے ہیں، اس
سلسلہ میں میری مدد میری کولیگ اور بہت اچھی دوست "ڈاکٹر دوناطیلہ" (Donatella)کررہی ہے۔ اسی سلسلہ میں ہمیں ایک کانفرنس ھال کی ضرورت
ہے ، مجھے رابطہ دیا گیا ایک ہوٹل
کا جنکے ہاں کانفرنس ھال بھی ہے اور
ریسٹورنٹ بھی۔ یہ رابطہ مجھے دونا طیلہ
نے دیا اور تاکید کی کہ ریکاردو ( Riccardo،انگریزی ریچرڈ ) کے
ساتھ بات کرلو اور پہنچ جاؤ موقع پر ، بس
میں نے فون کیا ملاقات طے کی اور پہنچ گیا
وقت مقررہ پر۔
ریکاردو بہت اخلاص سے ملا،
اس نے ہوٹل کا روٹین کے مطابق وزٹ کروایا،
ساری سیٹنگ دکھائی ، اچھا ہوٹل ہے
فور اسٹار ، کشادہ کانفرنس ہال، ریفریشمنٹ ایریا ، بہترین کچن اور کمرے، مطلب سب کچھ جس کی ہمیں ضرورت تھی
۔ کرایہ وغیرہ کی بات ہوئی اور آخر میں مجھے کہنے لگا کہ
تمھیں کچھ پینے کی آفر کرسکتا ہوں؟؟
میں ۔۔ نہیں ، بہت
شکریہ ، میں روزہ سے ہوں۔
ریکاردو۔۔ اوہ ہو،
مسلمان ہو؟؟
میں ۔۔ ہاں ہوں۔
ریکاردو۔۔تم اٹالین تو نہیں ہو؟ کہاں سے ہو؟؟
میں ۔۔نہیں تو
۔ ابھی تک پاکستانی ہوں، وہیں
پیدا ہوا تھا، وہیں پر تعلیم تعمیر ہوئی اور اب بہت برسوں سے ادھر ہوں۔
ریکاردو ۔۔ ہاں وہ تو تمھاری بات چیت سے ہی لگ رہا کہ کافی عرصہ سے ہو، ویسے تمھارے نام سے ہی میں سمجھ گیا تھاکہ
برصغیر سے ہے کوئی، تو ملا ہاتھ ، میں
اسرائیلی شہری ہوں۔ مگر عرب ہوں۔
میں ۔۔ بہت خوشی ہوئی ، پھر تو ہم دونوں مسلمان ہوئے؟؟
ریکاردو ۔۔ پرجوش طریقے سے ہاتھ ملاتے ہوئے، نہیں میں مسلمان تو نہیں ہوں عیسائی ہوں، مگر عرب ہوں۔ عرصہ تیس
برس سے ادھر رہ رہا ہوں، میں
فلسطینی عرب ہوں پر اب اسرائیلی شہریت رکھتا ہوں، ہم فلسطینی بھی عجیب
ہیں، وطن تو ہمارا اسرائیلیوں کے
قبضہ میں چلا گیا ہے اور ہم بھی اب تقسیم ہوگئے ہیں، شامی فلسطینی، اسرائیلی فلسطینی، لیبنانی فلسطینی، اردنی اور پتا نہیں کون کون
سے۔
میں۔۔ مگر ریکاردو،
یہ شام، فلسطین ، لبنان، مصر سب چھوٹے
چھوٹے ملک ہی تو ہیں، اور سب ہیں بھی عرب
ہی، تو پھر ایک ہی بات ہوئی کہ نہیں؟؟
ریکاردو۔۔ہاں ، بات تو
ایک ہی ہے ، ہم سب
عرب ہیں، ہماری زبان ایک ہے، ہماری تہذیب ایک ہے، کھانے اور تہوار ایک ہیں، فرق ہے
صرف مذہب کا، تو میں تمھیں یہ بتا دوں کہ
صرف مذہب کا فرق کچھ زیادہ نہیں ہوتا، ہم
لوگ صدیوں سے عیسائی ہیں، پر کبھی احساس ہی نہیں ہوا، میں تمھیں بتاؤں کہ میرا باپ جب ذبح کرتا تھا دنبہ تو مکہ کی
طرف منہ کرکے کرتا تھا اور تکبیر پڑھتا تھا، سبحان اللہ وللہ اکبر ولاالہ الااللہ ۔ حالانکہ وہ عیسائی
ہی ہے مگر یہ تو تہذیب کی اور رواج کی بات
ہے۔ عیدین سب کی ہوتی ہیں، رمضان آتا ہے تو ہم لوگ روزہ دار کے سامنے کھانا پینا بہت برا سمجھتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ ہمارے لئے سب سے بڑی بات ہے ہمارا عرب
ہونا، گو کہ میں
بھی اسرائیلی شہری ہوں مگر اسرائیلی شہری ہونا اور بات ہے اور یہودی ہونا اور بات
ہے، اسرائیل ایک راشسٹ ملک ہے، اور یہودی
راشسٹ قوم، کہنے کو تو اسرائیل ایک جمہور ی ریاست ہے مگر
صرف یہودیوں کےلئے، عربوں کے ساتھ جو ہوتا ہے چاہے وہ مسلمان ہوں چاہے
عیسائی، وہ بہت ہی برا ہے، ہم تیسرے درجہ کے شہری ہیں ، اور جو کچھ ہمیں سمجھا جاتا ہے اسکا اندازہ ائرپورٹ
پر پہنچ کر ہی ہوجاتا ہے۔ جو کتے والا سلوک ہم سے ہوتا ہے، جو ہر غیر یہودی سے
ہوتا ہے۔
اب دیکھو یہ جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے، یہ ایک بڑی پلاننگ کا حصہ ہے، اب غزہ کی پٹی کو بھی ختم کرد یا جائے گا، مسلمانوں اور عربوں کو صاف کردیا جائے گا اور پھر اسرائیلی
سرحد بڑھنی شروع ہوجائے گی شام اور عراق کی حدود میں۔
اس بات کی منصوبہ
بندی گزشتہ صدی میں ہی کر دی گئی تھی۔
اسرائیل کے ارد گرد کا علاقہ چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کر کے انکو آپس میں لڑا دو، تاکہ وہ اسرائیل کا مقابلہ نہ کرسکیں، سن لو اس خطہ میں عراق ایسا ملک تھا جو
اسرائیل سے نزدیک ہونے کے ساتھ ساتھ اسے نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا تھا، اور
گریٹر اسرائیل کے راستہ میں رکاوٹ
بن سکتا تھا۔ بس اس کو ملیامیٹ کردیا گیا،
سوریا ایک ملک تھا جو اسرائیل کو آنکھیں دکھاتا تھا ، اس کی بھی ناس ماردی گئی،
اسی طرح مصر میں آنے والی اسلامی حکومت
اسرائیل کےلئے خطرہ بن سکتی تھی اسکو بھی قابو کرلیا گیا۔ ، دوسری شفٹ کے طور پر مجاہدین اسلام کو خلافت کے نام پر شام اور عراق میں وہ
فساد ڈالنے کو بھیجا گیا ہے کہ ان ممالک
میں وہ افراتفری نافذ ہوجائے کہ
کوئی کسی کو پوچھنے کےلئے باقی ہی نہ رہے، لوگوں کو زندگی اور موت کی پڑی رہے،
مذہب، ثقافت، مسلمانیت یا کچھ اور کی ہوش ہی نہ رہے۔
سن لو کہ اب عراق
کو شیعہ اور سنی ریاستوں میں تبدیل کردیا جائے
گا۔ بھئی کیوں؟؟ کیونکہ سارا خطہ عرب ہے، سارے مسلمان ہیں تو اس خطہ
میں یہودی ریاست کیسے وجود میں آسکتی ہے، یا
اسکا وجود کیسے پنپ سکتا ہے، وہ
اسی صورت میں ہے، جب ایک شیعہ ریاست ہے،
ایک سنی ہو، ایک کرد ہو، لیبنانی ، شامی ،
مصری اردنی مصری ریاستیں تو پہلے ہیں موجود ہیں مگر وہ مذہب یا فرقہ کے نام پر
نہیں ہیں، صرف اسرائیل ہی ہے مذہب کے نام پر،
اس کا تو کوئی اخلاقی جواز ہی نہیں ہے۔
اب جب دیگر شیعہ ، سنی ریاستیں بنیں گی تو کہا جاسکے کہ "جناب اگر
مذہبی فرقہ کی بنیاد پر ریاستیں بن سکتیں ہیں تو
یہودی تو ایک الگ مذہب ہے، انکی اپنی ریاست تو لازم طور پر بنتی ہی بنتی ہے"۔
ایسے ہی یہ جو
مجاہدین اسلام چل نکلے ہیں یہ مسجدیں ، خانقاہیں اور مزارات کو اکھیڑ رہے ہیں، یہ
گریٹراسرائیل کا ہراول دستہ ہے، یہ تمھارے طالبان کی طرح ہی ہیں، جنکا کام صرف اور صرف ملک اور خطہ میں
دہشت ، افراتفری اور شورش پھلانا ہے، کہ کوئی نظام زندگی رائج نہ ہوسکے اور عربوں
اور مسلمانوں کوصرف زندگی بچانے کی جدوجہد تک ہی محدود رکھا جائے کیونکہ ایک صحت
مند اور ترقی یافتہ قوم اپنے ارد گرد بھی
دیکھتی ہے۔ جوکہ گریٹر اسرائیل کےلئے
شدید اور بڑی رکاوٹ ہے، ویسے اس وقت بڑی
رکاوٹ پاکستان اور اسکی فوج ہے کہ یہ خطے
میں واحد مسلمان ملک ہے جس میں اپنے مکمل دفاع کی ہی صلاحیت موجود نہیں ہے بلکہ یہ
گریٹر اسرائیل کے راستہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے، پھر ایران اور پھر ترکی، اور سب
سے آخر میں سعودی عرب کا نمبر آئے گا، کہ اگر پہلے اس پر ہاتھ ڈالیں تو ساری دنیا کے مسلمان ممالک اسکے ساتھ
ہیں۔
ریکاردو کی آنکھوں میں آنسو تھے اور سرجھکا ہوا تھا، میں بھی خاموشی سے بغیر کچھ کہے سرجھکا
کر مصافحہ کرکے نکل آیا۔
لامان و الحفیظ اب سے پہلے اسرائیل اور اس کی جارحیت سے متعلق اتنی معلوماتی تحریر نہیں پڑهی تهی
جواب دیںحذف کریںمجھے مولانا مودودی کی یہ چند باتیں یاد آگئیں" اے اسرائیل ! ____ تیری سرحدیں نیل سے فُرات تک ہیں ۔ "اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں
دنیا میں صرف اسرائیل ہی ایسا ملک ھے جس نے کُھلم کُھلا دوسری قوموں کے ملک پر قبضہ کرنے کا ارادہ عین اپنی پارلیمنٹ کی عمارت پر ثبت کر رکھا ھے ۔ کسی دوسرے ملک نے اس طرح علانیہ اپنی جارحیت کے ارادوں کا اظہار نہیں کیا ھے ۔ اس منصوبے کی جو تفصیل صیہونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ھے اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ھے اُن میں دریائے نیل تک مصر ، پورا اُردن ، پورا شام ، پورا لبنان ، عراق کا بڑا حصّہ ، ترکی کا جنوبی علاقہ ، اور جگر تھام کر سنیے کہ مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ھے
اگر دنیائے عرب اسی طرح کمزور رہی جیسی آج ھے ، اور خدانخواستہ دنیائے اسلام کا ردِّ عمل بھی مسجدِ اقصیٰ کی آتش زدگی پر کچھ زیادہ مؤثر ثابت نہ ہو سکا ، تو پھر خاکم بدہن ایک دن ہمیں وہ دن بھی دیکھنا پڑے گا جب یہ دشمنانِ اسلام اپنے ان ناپاک ارادوں کو پورا کرنے کے لیے پیش قدمی کر بیٹھیں گے
اس بارے میں تو بہت سے لوگ بیان کرگئے ہیں حال ہی میں ڈاکٹر اسرار احمد بھی اس بارے بتاتے رہے، مگر المیہ تو یہ ہے ہمارے مسلمان جو اس خطہ میں آباد ہیں وہ چین کی بانسری بجارہے ہیں، مزے کررہے فل ٹیم، کوئی فکر ہی نہیں ، وہ اپنے فرقوں اور علاقائی و جغرافیائی لسانی گروہوں مین بٹے ہوئے، علامہ اقبال اسی بارے میں جواب شکوہ میں فرماتے ہیں، بڑی بات تھی جو ہوتے مسلمان بھی ایک
جواب دیںحذف کریںمین نہین سمجھتی کہ اج ہم مین سے کسی کا اس سارے علاقے اور اسرائیل فلسطین اشو پہ ، اتنا واضح ویژن ہوگا ۔ ۔ ۔عنایت اپ کی ۔ ۔ کہ اپ نے اپنا مکالمہ یہان پوسٹ کردیا اور ہمین مستفید کیا
جواب دیںحذف کریںاللہ خیر کرے خان جی۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی آمد کا شکریہ بلکل اسی واضع وژن کی وجہ سے میں کئی ماہ بعد پھر سے بلاگ لکھ گیا، ظاہر ہے جو آدمی وہاں رہا ہے، وہ تو اندر کی بات جانتا ہے اور اندر کی بات ہی کرے گا، پھر دنیا بھی دیکھی ہو تو سوچ اور روشن اور پختہ ہوجاتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںاللہ ہی رحم کرنے والا ہے بس مرشدو
گویا سارا ایک کھیل ہی چل رہا ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہی حقیقت ہے کہ جب بندہ زنگی اور موت کی کشمکش میں ہو تو اسکو اپنے اردگرد کی فکر نہیں ہوتی۔اور یہی عرب ملکوں کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔یہ نام نہاد انقلابات یا سرگرمیاں سارے ہ شائد اس لڑی کی کڑیاں ہیں۔
جی بلکل ایسے ہی ہے، یہ مختلف ممالک والی فوٹو مجھے نیٹ سے تلاش کرتے ہوئے ملی ہے، سوائے اسرائیل کے خطہ کے تمام ممالک مین انکارکی اور افراتفری ہے، ہیجان کی کیفیت، آپ کو تو علم ہے ہی کہ جہاں پر اور جس پر ہیجان کی کیفیت ہوگی وہ کسی قسم کی پلاننگ سے معذور ہی رہے گا۔
جواب دیںحذف کریں