گزشتہ ہفتے ہمارے ادھر سول ہسپتا ل کے شعبہ نفسیات جسے
پنجابی میں سائیکالوجی کہاجاتا ہے کی طرف سے ایک " کیارہ " نامی خاتون کی کال آئی کہ " ڈاکٹر جی ، ہمارے لئے ٹائم نکالو، آپ کی مشاورت کی ضرورت
الشدید ہے وہ بھی بہت ارجنٹ" ۔
ہیں جی ؟ ، ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ ضرور کوئی پنگا ہوگا، کچھ
الٹا ہی ہوگا، ورنہ اس سے پہلے مجھے شعبہ
نفسیات والوں نے کبھی نہیں بلایا۔
ادھر پہنچا تو ڈاکٹر کیارہ
جو سائیکٹریک ہیں اور سوشل سائیکولوجی میں ماہر ہیں، میرا انتظار کررہی تھیں، بچاری بہت مشکور ہوئیں کہ میں نے
اپنے قیمتی وقت سے " ٹائم " نکالا ہے، دو چار بار تو میں نے" کوئی
گل نہیں " کہہ کر بات آئی گئی کردی
مگر اسکے بعد صرف سر کھجا کررہ جاتا۔بعد از طویل تمہید و بیان سیاق وسباق کے ، انہوں نے آمدبر مطلب کے مصداق جو کچھ بتایا اس کا خلاصہ بیان کردیتا ہوں اور
اس کہانی کے نتیجہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ تو سنئے
ڈاکٹر کیارہ کی زبانی۔
گزشتہ ہفتے ہمارے
پاس ایمرجنسی میں ایک پاکستانی آیا ہے جس
کی کچھ سمجھ نہیں آرہی، اس کی عمر چالیس برس ہے ، چھوٹی چھوٹی ترشی ہوئی داھڑی
رکھی ہوئی ہے، سر پر ٹوپی مخصوص قسم کی گول شکل کی، جس کے سامنے ایک کٹ سا ہے۔ کپٹرے
پاکستانی شلوار قمیض، وہ بھی کچھ ایویں سا ہی۔ جسمانی طور پر کمزور، مگر لگتا ہے
کبھی کافی بھرے جسم کا مالک رہا ہوگا۔
کہتا ہے کہ اس پر جن آتے ہیں اور اسے تنگ کرتے ہیں، اسکا نام محمد مالک میر ہے،
تعلیمی لحاظ سے کچھ خاص پڑھا لکھا نہیں ہے، شاید اپنے دستخط کرلیتاہے، ادھر اٹلی میں عرصہ
دراز سے کوئی بیس برس سے مقیم ہے ، اطالوی زبان پر
مناسب دسترس رکھتا ہےمطلب بات
سمجھ سمجھا لیتا ہے۔ ہیں جی۔
میرے پوچھنے پر اس نے بتا یا کہ " اسکا تعلق پاکستان کے شہر گجرات سے ہے،
والد اسکا قصائی کا کام کرتا تھا، سات بہن بھائیوں میں سے پانچویں نمبر پر ہے، اسکے
تین بچے ہیں جو پاکستان میں ہی ہیں اور یہ
کہ گزشتہ چھ برس سے ادھر بے روزگار ہے۔ پانچ برس سے پاکستان نہیں گیا، مطلب اپنے اہل خانہ سے دور ہے، پہلے اسکے پاس اپنا کرایہ کا فلیٹ تھا جو چھوٹ گیا، ابھی اسکے پاس باقاعدہ رہائش بھی نہیں اور اپنے کسی گھمن نامی خاص دوست کے ہاں رہتا ہے جو اس سے کرایہ بھی
نہیں لیتا۔ یہ گھمن جی آج تک اسکا ہسپتال میں پتا کرنے نہیں آئے۔
جن کے آنے کے بارے اس نے بتایا کہ کہ میر جی کا کہنا ہے کہ
" میں نے ایک بار ایک پاک جگہ پر پیشاب کردیا تھا جس کی وجہ سے جن مجھے چمٹ گئے
ہیں اور ا ب تنگ کر رہے ہیں۔ مزید تحقیق
پر معلوم ہوا کہ یہ پیشاب کرنے والا واقعہ
اس وقت کا ہے جب وہ پاکستان میں تھا۔ مطلب کوئی بیس برس قدیم یا شاید اس سے بھی زیادہ، ابھی وہ نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہے مگر نہیں
پڑھ سکتا ۔
ڈاکٹر کیارہ کچھ
یوں گویا ہوئیں " ہم نے آپ کے بارے بہت سنا ڈاکٹر جی، کہ معالج بھی ہو اور پھر ثقافتی ثالث بھی ہو، آ
پ نے نفسیات بھی پڑھی ہوگی۔ تو آپ ہمیں پاکستانی معاشرہ کے پس منظر میں اس کیس کی
حقیقت بتاؤ۔
اب میں کیا بتاؤں۔
ایک بے روزگار آدمی کو جن نہ پڑیں
تو اور کیا ہو؟ آپ بتاؤ، اول بات پاک جگہ
پر پیشاب کرنے والی تو ، یہ بات تو واقعی
ہمارے ادھر مشہور ہے، مگر میرے خیال سے یہ کچھ ایسے ہی ہے جس طرح ہندو معاشرہ میں گائے
ماتا کا کردار ہے، کہ بھئی یہ جانور چونکہ دودھ دیتا ہے مکھن بھی توقحط کے دنوں
میں اسے "گائے ماتا" کا لقب دیا گیا کہ تب اس کا کام " ماں"
کا ہی ہوتا ہے جو کھانے کو دیتی ہے۔ پاکستان میں عام مشہور ہے کہ فلاں بندے کو جن
چمٹ گیا کہ اس نے چلتے پانی میں پیشاب کردیا تھا، فلا ں نے درخت
کے سائے نیچے بول براز کردیا تھا اور
درختوں پر جنات کا ڈیر ہ ہوتا ہے، کچھ
ایسا ہی قبرستان کے بارے مشہور ہے۔ اب اگر سوچا جائے تو چلتا پانی ، سایہ
اور قبرستان ہمارے لئے کس قدر اہم
ہیں اور یہ بھی کہ انکو گندگی سے پاک رکھنے کا
اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ ادھر جن کا ڈیر ہ ہو اور وہ ہر
مُوت کرنے والے کو چمٹے، کم سے کم جو یہ
کچھ سن لے گا وہ ان جگہوں پر اپنی حوائیہ
ضروریہ پوری کرنے
سےفل بٹا فل گریز کرے گا۔
کچھ سوالا ت
۔جن پاکستا ن ادھر کیسے پہنچا، ضرور پی آئی اے سے آیا ہوگا، ایسے صورت میں اسکی ٹکٹ کو نسی
ایجنسی سے بنی اور اسکا۔خرچہ کس نےبرداشت کیا؟
یہ جن صاحب بیس برس
تک کس چیز کو اڈیکتے رہے ، صرف تب ہی کیوں
چمٹے جب یہ بندہ بے روزگار ہوگیا،
اس سے
پہلے چمٹتے تو انکو کچھ یورو بھی مل سکتے تھے؟
پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہی بندوں کو جن کیوں
چمٹتے ہیں ، اٹالین لوگ پر حملہ آور
نہیں ہوتے۔ اسکی وجہ؟
کبھی آپ نے سنا کہ جن کسی
سید ، چوہدری، راجپوت، پٹھان ، و
اس طرز کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ۔ پڑے ہوں؟؟ میں نے تو نہیں سنا۔ہیں جی
پھر یہ جنات قصائی ، نائی اور اس قبیل کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے پر ہی کیوں اکثر چڑھائی کردیتے ہیں؟؟؟ہیں جی
مکمل تحریر »