یہ تصویر 2007 کی ہے سسلی میں اس مقام کو تاورمینہ کہا جاتا ہے اور یہ اس کا ایمفی تھیٹر Enfi teatro ہے, جو میرے بالکل عقب میں اپ کو دکھائی دے رہا ہے, جہاں پر میں کھڑا ہوں یہ بیٹھنے کی جگہ ہے اور اس وقت اس میں ساڑھے چار ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے یہ تھیٹر اب بھی استعمال ہوتا ہے، یہ تھیٹر یونانیوں نے تین سو قبل مسیح میں تعمیر کیا تھا اس وقت اس کی عمارت جو اپ کو میرے پیچھے نظر ارہی ہے اس کی بلندی 109 میٹر 300 فٹ سے زیادہ تھی، 35 میٹر کا ارکیسٹرا اس میں اپنا شو کرتا تھا اور اس وقت اس میں 10 ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی
اس سے بھی پیچھے اگر اپ دیکھیں
تو
پس منظر میں ایک پہاڑ نظر ا رہا ہے یہ بھی کمال کی چیز ہے، ابھی اپ کو اس کے اوپر برف پڑی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور اس برف کے اوپر اپ کو بادل بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
دراصل یہ بادل نہیں ہے
دھواں ہے
یہ اصل میں مشہور زمانہ اتش فشاں ہے جس کا نام "اتنا Etna" اور یہ دنیا کے ایکٹو اتش فشاں پہاڑوں میں سے ایک ہے, ہر وقت ابھی بھی اس سے اگ، دھواں، کنکر، نکلتے رہتے ہیں کبھی کم کبھی زیادہ، کبھی بند ہو جاتا ہے
لیکن
اس کے اندر لاوا کھولتا رہتا ہے۔
اسے moenjobello کہتے بھی کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ اطالوی اور عربی الفاظ کا مجموعہ ہے monte jebelo, مونٹے پہاڑ اور جبل پہاڑ، کچھ زیادے سائنس دان اسے پہاڑوں کا پہاڑ بھی کہتے ہیں۔ کچھ اسے خوبصورت bello پہاڑ بھی کہہ رہے ہوتے۔
موئینجو بیلو اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ موئنجوداڑو کو بھی کا پہاڑ کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ موئینجو کا لفظ پہاڑ کے لیے استعمال ہوتا تھا کسی زمانے میں اب سندھ میں اور سسلی میں ایک ہی لفظ پہاڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو پھر اس میں کوئی نہ کوئی کنیکشن تو ہوگا جو تاریخ دانوں کو تلاش کرنا چاہیے
تاورمینہ Taormina تاریخ میں ایک اور چیز کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے اسلامی دور میں یہ مرکزی شہروں میں سے ایک تھا اب بھی ترمینہ کا قلعہ دیکھا جا سکتا ہے ترمینہ کا بازار دیکھا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ شہر کے اندر ایک مسجد دیکھی جا سکتی ہے پھر جب مسلمان یہاں سے چلے گئے تو چلے گئے
سسلی طریقے سلام کی وہ ریاست ہے جو سب سے پہلے سقوط کا شکار ہوئی۔ اس وقت جب ایک طرف گیارہویں صدی میں اندلس کی تہذیب اپنے عروج پر تھی دوسری طرف قاہرہ میں فاطمی خلافت پورے جلوے میں تھی اور بغداد میں خلافت عباسیہ جلوہ گر تھی۔
1190 میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہو گئی
لیکن
اس کے بعد مسلمان یہاں پر رہے پھرپندرویں صدی میں جب اندلس سے مسلمانوں کو قتل عام کر کے ختم کیا گیا تو یہاں پر بھی وہی ظلم کا سلسلہ تاریخ نے دیکھا لیکن تاریخ نے اس سے بڑا ظلم یہ دیکھا کہ اس ریاست کا اج کوئی نام لیوا بھی نہیں نہ پڑھا جاتا ہے نہ پڑھایا جاتا ہے۔
اپ ٹینشن نہ لیں میں ویسے ہی کبھی کبھی دورے میں ا جاتا ہوں ہمارے ایک بزرگ فرما گئے ہیں
کوئی مرے کوئی جیے
کھسرہ کہول پتاسا پیے
میں سسلی میں اکثر جاتا رہتا ہوں اور ہر دفعہ دکھی ہوتا ہوں ہر دفعہ چلتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کوئی کہہ دے گا السلام علیکم پا جی کدھر ہو؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔