کہتے ہیں کہ وہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ دنوں تک عمارتوں کے ملبے کے نیچے سے اوازیں اتی رہتی ہیں اور پھر اہستہ اہستہ وہ اوازیں بند ہو جاتی ہیں اور کوئی اواز بند ہوتی ہے نو دن بعد کوئی دس دن بعد کوئی دو ہفتے بعد ان اوازوں میں درد بھی ہوتا ہے اور بھوک بھی ہوتی ہے اور وہاں پر موجود لوگ کچھ بھی نہیں کر سکتے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے نہ کوئی بلڈوزر ہے نہ کوئی اوزار ہیں بلکہ ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ ان لوگوں کو نکال سکیں
کیونکہ
ان کو تو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہوتے ہیں کوئی پتہ نہیں کوئی گولا کہاں سے ا جائے کوئی گولی کہاں سے ا جائے جو جو زخمی ہیں ان کو سنبھالیں یا اپنی جان بچائیں عمارتیں نہیں ہیں سکول نہیں ہیں ا زخمی بے شمار موجود ہیں بچے بھوک سے مر رہے ہیں تڑپ رہے ہیں ضعیف لوگ جو تھے وہ بھوک کو برداشت نہیں کر پا رہے،
اس وقت ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی اواز بلند کریں عورتوں بچوں ضعیفوں نوجوانوں اور نہتے لوگوں کے حق کے لیے ہم ان پر اپنا مال خرچ کریں ان تک کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے والے اداروں کی مدد کریں ورنہ یہ سوال ہم پر بھی ہوگا کیونکہ غزا میں جنگ نہیں ہو رہی بلکہ یہ ایک جینوسائیڈ ہے انسانی قتل، ایک قوم کو ختم کیا جا رہا ہے۔
یہ تصویر یہاں پر مقامی فلسطینیوں کے معاون ڈاکٹرز کے گروپ میں سے لی گئی ہے جس میں ایک باپ اپنے نومولود مارے جانے والے بچے کا ہاتھ چوم رہا ہے۔
#STOPtheGENOCIDE #GazaStarving #GazaPalestine
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔