بہت سالوں کے بعد اس دفعہ خوش قسمتی سے پاکستان میں تقریباُ ٣ ماہ رہنے کا اتفاق ہوا، تمام اہلِ خانہ اور جملہ احباب بہت خوش تھے کہ چلو آخر کار لمبی لمبی ملاقاتیں ہونگی اور گپ چلے گی۔ چند دن گزرتے ہیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ پوسٹر اور بینرز کی بھر مار ہو رہی ہے اور ایک نیا کام جو دیکھا اس دفعہ کہ کاروں کی عقبی اسکرین پر نام لکھے گئے ہیں ساتھ امیدوار برائے فلاں وغیرہ۔
اسکا ایک فائدہ البتہ ہوا کہ ملنے والوں کا تانتا بندھا رہا، اول تو گھر سے نکلنا محال تھا پہلے تو دوست احباب ملنے آتے رہے پھر امیدوار اور پھر انکے حمائتی کہ لوجی چونکہ ہم آپ کے یہ لگتے ہیں اور ہم ووٹ دے رہے ہیں مرزا صاحب کو لہذا آپ نے بھی مرزا صاحب کو ووٹ دینی ہے، ہمارے دوست ماسٹر طارق صاحب بھی مرزا صاحب کے زبردست حمائیتی ہیں اور ہر روز بلا ناغہ آکرمرزا صاحب کو ووٹ دینے کی تاکید کرتے رہے، ایک دن میں نے از راہّ تفنن کہہ دیا کہ میں تو چوہدری صاحب کو ووٹ دے رہا ہوں آپ بھی انکو ووٹ دیں تو ناراض ہوگئے کہ لو اب تم بڑے آدمی بن چکے ہواور تم پر ہمارا اتنا حق بھی نہیں، لو جی آج سے ہماری تمھاری ختم اور ہم جارہے ہیں۔ میں انکے جانے کے بعد سوچتا رہ گیا کہ انکا تو مجھ پر حق ہے مگر میرا ان پر کیوں نہیں؟ بعد میں ماسٹر صاحب کو راضی بہت مشکل سے راضی کیا اس وعدہ کے ساتھ کہ ہاں ووٹ مرزا صاحب کو ہی دیں گے تو کہنے لگے صرف اپنی ووٹ نہیں بلکہ گھر کے تمام افراد اور مجھے حامی بھرنی پڑی۔
اور ایک میرے اطالوی دوست سنیور دوریانو ہیں، پچھلے برس الیکشن کے چند دنوں کے بعد ہم اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے ایک کیفیٹیریا میں اور ڈاکٹر فرانکو باتوں ہی باتوں میں پوچھ بیٹھے کہ سنیور دوریانو تم نے کس کو ووٹ دی تھی اب سنیور دوریانو راشن لے کر چڑھ گئے ڈاکٹر پر کہ تم دنیا کے انتہائی جاہل آدمی ہو جس کو دوسروں کے حقوق کا پاس تک نہیں، ووٹ میری ہے یا تمہاری، تم ہوتے کون ہو پوچھنے والے وغیرہ وغیرہ، اور ڈاکٹر صاحب معذرت کرتے نظر آئے کہ غلطی سے کہہ دیا معاف کردو۔ مجھ سے انتہائی غیر جمہوری اور جاہلانہ حرکت سرزد ہو گئی ہے
Post Top Ad
Your Ad Spot
ہفتہ, اکتوبر 01, 2005
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
ہمیں ابھی تک نہ تو جمہوریت کا پتہ ہے نہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ووٹ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کیا کرے؟
جواب دیںحذف کریںڈاکٹر صاحب آپ اطالیہ پہنچ گئے کہ ابھی جہلم میں ہیں ؟ میرا ارادہ آپ سے ملاقات تھا کہ سی بہانے عرصہ دراز بعد جہلم کی سیر بھی ہو جاۓ گی لیکن دوسرے شہروں اور ممالک سے عزیو اقارب آتے رہے اور خواہش پوری نہ ہو سکی ۔
جواب دیںحذف کریںہمارے ملک کا موجودہ رواج ہے کہ حق صرف میرا ہے کیو کہ ہم لوگ خود غرض ہونے کے ساتھ کوتاہ اندیش بھی ہو چکے ہیں ۔
can I get this in english
جواب دیںحذف کریںsorry sir bcz this is an urdu blog and I would like to write here all in urdu font.
جواب دیںحذف کریںany way thanks for your visit.
AOA..hasb-e-waada yahan hazir hein.so aap ne Pakistan aane kay liye khub mozoon waqt chuna..sahib abhi tou aap ne woh kuch nahi dekha jo elections kay dinon mein humara culture bun gaya hai.U know we are unique ppl so vote lene aur dene kay khub naye tareeqe nikal liye hein hum ne..
جواب دیںحذف کریںbaherhal bhot acha laga aap ki tehreer perhh ker.Allah kare zorey qalam aur zayada
dua'go
Gul Rukh