ویسے تو کہا جاتا
ہے کہ بلاگنگ ایک ذاتی فعل ہے ، یہ بات ہے بھی سچ بادی النظر میں کہ بلاگر کا بلاگ اپنا ہوتا ہے، گویا اسکی اپنی
دنیا یا اسکا اپنا گھر، کہنے والے چمن بھی کہتے سکتے ہیں، جیسے مرضی اسکو سجائے سنوارے، اسکو ترتیب دے،
جو مرضی لکھے، جیسے مرضی اور جب مرضی،
مطلب فل آزادی، چاہے ذرداری کو
گالیاں دے، چاہے، مولبی طاہر القادری کے کیڑے نکالے یا نواز شریف کےنئے نئے بالوں کا ذکر کرے، بھلے
عمران خان کی ساٹھ سالہ نوجوان قیادت کا ڈھنڈورا پیٹے، الطاف بھائی کا بڑاں بڑا ں
والا خطاب سنائے۔ یا پھر میری طرح سفر نامے لکھے یا بدمغزیاں مارے۔
خیال تھا کہ ایک آزاد میڈیا کے طور پر چلے گا، جس میں ہر
بندہ بلاگ بنا کر اپنے دل کے پھھپولے پھوڑے۔
دوسروں کو گالیاں دے۔ لطیفے بھی
سنائے، سیاہ ست اور سیاہ ست دانوں پر لمبے تبصرے۔ پوری قوم کو بھلا برُا
کہنا، مگر سب ایسا نہیں ہے۔ جب آپ بلاگ
لکھتے ہیں تو اسکے پڑھنے والے بھی ہوتے ہیں اب آپ کے بلاگ کے پڑھنے والے وہی ہونگے جو آپ جیسے ہوں، جو وہی پڑھنا چاہتے ہیں جو آپ لکھ رہے ہیں ، نہیں تو اگلے نے دوسری بار
نہیں آنا۔
مگر سب کچھ یہاں تک نہیں ہے، بلاگنگ نے ایک سرکل کی شکل اختیار کرلی ، جس میں
کچھ لوگ جو ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں وہ
ایک دوسرے کے قریب ہوگئے، ہوتے جارہے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ بلاگرز ہی
ایک دوسرے کے بلاگز پر تبصرہ کرتے ہیں اور
جوابی تبصرہ کرنے کا انتظار بھی، میرے ادھر بھی ، تقریباُ وہی احباب تبصرہ کریں گے جنکے بلاگز پر میں
جاتا ہوں۔ مطلب یہ ایک قسم کی رسہ گیری
بھی ہوگئی ہے، آپ کے جتنے ذاتی تعلقات ہیں آپ کے بلاگ پر اتنے لوگ ہی آئیں
گے، ورنہ
اگر کوئی آ بھی گیا تو تبصرہ کئے بغیر نکل لے گا جس طرح آپ سے پہلے دو
صاحبان نے پوسٹ پڑھی اور بغیر تبصرہ کئے
"اڑنچھو" ہوگئے۔
وہی اکبر آلہ آبادی کے بقول : اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
آج تو ادھر جلسہ بھی ہورہا ہے اردو بلاگز کا، ادھر بھی جو جسکی تعریف کرے گا اگلا اسکی " تریفوں" کے ٹل باندھ دے گا۔
منہ پر ویسے بھی ہمارے ادھر تنقید
کرنے کا رواج نہیں ہے نہ ہیں ہمت۔ اگر میں بھی ہوتا تو لازمی طور پر یہ پوسٹ لکھنے
کی بجائے ادھر کسی کی تعریف کررہا ہوتا یا پھر سن رہا ہوتا۔ گویا
انسانی طور پر وہی کچھ لو اور کچھ دو۔
تبصرہ کرو تبصرہ کرواؤ،
اچھا تبصرہ ہوگا تو جواب بھی اچھا ملے گا، اگر میں آپ کے بلاگ پر چیں چیں
کرکے آیا ہوں تو ادھر بھی لازمی طور پر " چیں چیں" ہی ہوگی۔
نتیجہ : جیسی کرنی
ویسے بھرنی۔