سانپ ایک خوبصورت جانور ہے،یہ ایک رینگنے والا جانور ہے جسکی ہزاروں اقسام ہیں، بچارا معذور بھی ہوتا ہے۔ نہ ہی چل پاتا ہے نہ ہی اڑ سکتا ہے۔ ایسے میں قدرت نے اسے پنے دفاع کے لیے زہر دیا ہوا۔ خطرہ محسوس کرتا ہے تو فوراً بھاگ نکلنے کی سوچتا ہے پھنس جائے تو ڈسنے کو حملہ کرنا ہے۔ یہ تو چیونٹی 🐜 بھی کرتی ہے۔ اگر بات سمجھ نہیں آئی تو مکوڑے کو انگلی کر دیکھو🤣۔
ہم انسانوں کی عادت ہے کہ خوف پال لیتے ہیں اور پھر اسے نفرت میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ سانپوں کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔ ان سے ڈر کی وجہ سے ہم نے ان سے نفرت پال لی اور جدھر سانپ دیکھائی دیا ہم نے خوفزدہ ہو کر شور مچا دیا۔ اب سانپ کو بھی اپنی جان کے لالے پڑ جاویں کہ ہیں۔ "اس نوں کی ہویا؟ میں کی کیتا؟" اب وہ بھی ہیبت جاتا ہے۔ پھر جو مرے سو مرے۔
بہت سے سانپ ڈڈو 🐸 اور چوہے کھانے والے ہوتے ہیں، اکثریت میں زہر نہیں ہوتا۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ بس یہ پتا ہونا چاہئے کہ کونسا ڈڈو کھانے والا ہے اور کس سے انگلی نہیں کرنی😂۔
گورے نے اپنے سب خوف ختم کرنے شروع کئے ہوئے۔ اب یہاں کتے بلیوں اور پرندوں کے بعد پالے جانے والا جانور سانپ ہے۔ کہتے ہیں بہت ذہین اور محبت کرنے والا جانور ہے۔ ایک دوست نے سانپ 🐍 پالا ہوا ہے، کہتا ہے کہ میرا سانپ مجھے صبح جرابیں بھی لا کر دیتا۔ بندہ سوچے اب اتنے سے کام کےلئے سانپ پالنا؟؟ ویسے بھی یورپ کے سانپ زہریلے نہیں ہوتے۔ صرف ایک ویپرا ہے جو اٹلی کے پہاڑی علاقے میں پایا جاتا ہے اس کے ڈسنے سے بندہ مرتا نہیں۔ بے شک لڑوا کے دیکھ لو😇
وہ اسے باقاعدہ طور پر ڈاکٹر کے پاس بھی لے کے جاتا ہے۔ مطلب اسکا علاج معالجہ بھی ہوتا ہے۔ کچھ ہومیوپیتھک ادویات بھی سانپوں سے بنتی ہیں۔ چونکہ ہومیوپیتھک معالجات میں سارے تجربات براہ راست انسانوں پر ہوتے ہیں تو ہمارے پاس ریکارڈ میں انکی ذہنی نفسیاتی حالت اور روئیے بھی ملتے ہیں۔ جن پر یہ ادوایات آزمائی گئیں۔ چونکہ دوا اور مریض میں مماثلت تلاش کی جاتی ہے تاکہ ممکنہ طور پر بلمٹل دوا دی جا سکے تو اکثر مریضوں کو دوا کے نام سے ہی پکار جاتا ہے جیسے لیکسس، ناجا، کروٹیلس وغیرہ ان سب لوگوں میں حسد بغض، غصہ اورکینہ پروری کو پایا گیا۔ 🤬 لوگوں کے رویوں کو اس تناظر میں دیکھنا بھی ایک مزے کا کام ہے۔
قدیم مذاہبِ میں سانپ کو ایک حرامی اور بے ایمان کردار کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہتے ہیں کہ آدم و حوا کو بھی اسی نے سیب کھانے کا مشورہ دیا تھا۔
قدیم مصری اور ہندو تہذیبوں میں سانپوں کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور دیوتا کا درجہ دیتے ہیں، قدیم مصری مقابر سے ملنے والی تحاریر و تصاویر میں سانپ کی موجودگی اسکی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ ہندوستان میں ان کے ناگ 🐍 مندر بھی ہیں جہاں سانپوں کو دودھ بھی پلایا جاتا ہے۔
انسانی سانپ: ہندو روایات میں کہا جاتا ہے کہ سانپ سو سال کا ہو جاوے تو انسان بن سکتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پھر انسان تو اشرف المخلوقات ہے اسے تو پچاس سال میں سانپ بن جانا چاہیے۔ میری اپنی عمر 50 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ کئی برس سے منہ کا ذائقہ کبھی کبھی کڑوا ہوجاتا ہے اور اپنا آپ زہریلا زہریلا سا محسوس ہوتا ہے۔
آستین کے سانپ: یہ جسامت کے لحاظ سے چھوٹے سانپ ہیں اور قدیم زمانے میں لوگ انہیں خود پالتے ہیں ایسے مانوس ہوجاتے ہیں کہ بس آستین میں لپیٹ لیا اور جسکو چاہا ڈسوا لیا۔ کبھی کبھی یہ موج میں آکر صاحب آستین کو بھی ڈس لیتے اور اسکا بولو رام ۔
آج کا یہ دن آستین کے ان سانپوں کے نام جو ہم سب نے پالے ہوتے ہیں۔ 🤣😅😂
#WorldSnakeDay
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔