ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار, اگست 24, 2014

ڈڈھو نکالنا

ڈڈھو   نکالنا
جون  میں شمالی پنجاب کی گرمی بہت شدید ہوتی ہے، خاص طور پر جہلم کی سطح مرتفع  کی گرمی  جہاں پر درجہ حرارت شدید ہو جاتا ہے ، پچاس  سینٹی گریڈ تک تھرمامیٹر کا پارہ پہنچ جاتا ہے۔  گویا اب تھرما میٹر پھٹا کہ پھٹا ،  ہر طرف   دھوپ کی چمک اور گرم لو۔ 
ایسے میں گھاس تک جل جاتی ہے اور جانوروں کےلئے سبز چارہ کا حصول بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ انسان تو کیا جانور تو جانور بھی چھپتے پھرتے ہیں، درختوں کے سائے تلے ہوں یا دیوار کی اوٹ میں ایک جیسی جی جلانے والی گرمی سب کو تپائے ہوئے ہوتی ہے۔  کسی پل آرام نہیں ہوتا

دریا کر کنارے رہنے والے تو دریا کے پانی میں گھس جاتے ہیں مگر وہ بھی کب تک ۔ باہر نکلیں تو پھر دو تین منٹ بعد وہی حال ہوتا ہے۔
چونکہ گھاس و سبزہ سب خشک ہوچکا ہوتا ہے تو  رات کو شبنم بھی نہیں ہوتی۔ گویا بلکل خشکی اور شدید گرمی۔ ایسے ماحول میں جب سب جی جلائے بیٹھے ہوتے ہیں تو سہ پہر کو جانے کب کسی من چلے کو    " ڈڈھو"  نکالنے کی پہلی بار سوجھی۔     اور پھر ایک رواج ہی  بن گیا بس۔

ڈڈھو پنجابی میں مینڈک کو کہتے ہیں، خاص طور پر وہ جو بڑا سا  ہوتا ہے۔  ساون کے موسم میں جب برسات سے ہر طرف جل تھل ہوتی ہے تو نظر آتا ہے گویا یہ ساون کے ہرے بھر ے موسم کی علامت ہوا۔

تقریب اس میں یہ ہوتی ہے کہ  لڑکے بالے    مسجد سے نکلتے ہوئے نمازیوں پر پانی پھینکتےہیں اچانک سے،  کہ انکو ٹھنڈ پڑے، انکا تراہ نکلے۔  عام طور پر اس شدید گرمی میں ٹھنڈا پانی بہت خوشگوار ہوتا ہے اور ہر بندے پر اسکا بہت اچھا اثر ہوتا ہے۔ تو نمازی لوگ دعائیں دیتے ہیں۔ اور اللہ کے نیک بندوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ ابرکرم برسا دیتا ہے۔
یہ تو ہو گیا   ڈڈھو نکالنے کا سنجیدہ پہلو۔ اسکے ساتھ ساتھ اسکا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ دعائیں دینے کی بجائے گالیاں دینے لگتے ہیں،
کہ "تہاڈی ماں نوں۔۔۔۔  ،   تہاڈی پہینڑں نوں۔۔۔۔۔۔
اب لڑکے بالے اس بات کا برا منانے کی بجائے اس بات کا مزاق  بنا لیتے ہیں اور ٹھٹھا بنا لیتے ہیں ، ادھر "باباز "گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور ادھر لڑکے بالے اور بڑے بوڑھے قہقے لگا رہے ہوتے ہیں۔
ایسے میں کوئی من چلا یہ کرتا ہے کہ نالی میں  سے دیکھ داکھ کر  کہیں نہ کہیں سے ، کیچڑ سے لتھڑا ہوا مینڈک کسی ڈبے میں ڈال لاتا ہے اور جو بابا یا مائی سب سے زیادہ گالیاں دے رہا ہوتا ہے اس پر پھینک دیا جاتا ہے
بس پھر ادھر سے پرزور گالیاں پڑرہی ہوتی ہیں اور ادھر سے پرزور قہقہے

اب ہم بڑے ہوگئے ہیں اور عرصہ سے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے نہیں علم کہ اب بھی ڈدھو نکالا جاتا ہے یا نہیں  مگر فیس بک پر ایک بابا پکڑا گیا ہے۔ ان دنوں ایسا ہی ۔  بات بے بات گالیاں دیتا ہے اور آج میں نے پوچھ لیا ، باوا جی آپ کی گالیاں دینے کی تربیت کس استاد نے کی؟؟ بہت مشاق ہیں آپ اس شعبہ میں تو اپنے استاد کا نام تو بتائیں۔
بس پھر   وہی  ادھر کی گالیاں اور ادھر کے قہقہے



5 تبصرے:

  1. کتھوں جی، باوے نے بس گالاں کڈیاں

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت اعلیٰ،
    تو استاد جی کا پتہ چلا؟ D:

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہاہا ایسے لوگوں کے استاد نی ہوا کرتے
    یہ بڑے سیلف میڈ لوگ ہوا کرتے ہیں
    عموماً انکو اپنے والد محترم کا بھی نی پتا ہوتا وہ اپنی دنیا میں آمد کو بھی ذاتی کارنامہ ہی سمجھتے ہیں :v :D

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں