ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ, مئی 04, 2013

چاؤ! (اردو بلاگ نگاروں کی پہلی سمندر پار کانفرنس) بندے وصول پائے

داغ بیل
لاہور میں ہونے والی المشہور آل پاکستان اردو بلاگز کانفرنس کے فوٹو و اسٹریمنگ پورا دن   دیکھ دیکھ کر ہم شدید جیلسی کا شکار  ہوچکے تھے، مطلب دل سڑا ہوا تھا۔ پاکستان  جا نہ سکتے تھے،  جی جی وہی غم روزگار،  اور ادھر چپکے پڑے رہنا دشوار تھا۔ پس اپنی فسادی طبیعت کے زیر اثر یاسر خواہ مخواہ جاپانی جی سے رابطہ ہوا ، ویسے تو وہ عام بندے کا حال بیان کرتے ہیں مگر اس بار ہم نے انکو  اپنی روداد سنائی ،اور  کہ مرشد کچھ کرنا چاہئے ، مرشد بھی بھرے پڑے تھے،  کہنے لگے کہ خیال تو نیک ہے مگر کہاں، ؟؟ میں نے کہا کہ ادھر ہی آجاؤ ،  میرے پاس ، وینس میں۔
وینس مشہور ہے، اردو کے لئے تو نہیں مگر سیر سپاٹے و لچے پن کی وجہ سے، فل ٹورسٹ پوائنٹ ہے  اور سمندر کے کوئی 7 کلومیٹر اندر آباد شہر، عمارات قدیم و بندے جدید ،  رہائشی لوگوں سے سیاحوں کی تعداد کہیں زیادہ، اندازہ لگاؤ، کہ ایک رہائشی بندے کے حصے 700 سے زیادہ بستر آتے ہیں،   یار لوگ ادھر یا تو ہنی مون کے لئے  آتے ہیں یا  پھر رومانٹک  سیر سپاٹے کےلئے ، ہم  اردو کو اپنی محبوبہ  مان کر  کام چلا لیں گے،    مان گئے اور یوں بندہ نے اعلان کردیا کہ چلو اللہ کرے گا  کچھ بندے  اکٹھے ہو ہی جاویں گے،  علی حسان ، ٹالن  والے ، چشم و چراغ سانتا فامیلیا ملتانو، مطلب ملتان سے شاہ جی، اس طرف سے، رابطہ ہوا تو وہ ترنت تیار،   خاورکھوکھر جی سے بات ہوئی چڑھتے سورج کی سرزمین سے تو وہ بھی تیار، بلکہ انکی باتوں سے تو یہ بھی اندازہ تھا کہ سارے جلسہ کا خرچہ وہی اٹھائیں گے،  یاسر صاحب  کا بھی خیال تھا کہ  خاور کھوکھر امیر بندے ہیں، یہ کام وہی کریں تو اچھا،  ویسے خاور صاحب سے میری ازمہ قدیم کے دور کی سلام دعا ہے، تب ہم کوئی بیس کے قریب بلاگر ہوتے تھے،  ہیں  جی۔  جاوید گوندل صاحب  بے لاگ ، سے اسپین میں رابطہ ہوا فیس بک کے ذریعے مگر ، ٹیلی فون کرنے کی فرصت نہ مل سکی،  اسکائیپ پر وہ دستیاب نہ تھے۔

پاکستان سے مولوی محمد سعد  مذلہ عالیہ  بھی تیار تھے اگر ہم ، ٹکٹ پاسپورٹ  ویزہ وغیرہ کے اخراجات  اپنے ذمہ لیتے تو، مگر ایسا تکنیکی وجوہات کی بنا پر ممکن نہ تھا، ایک صاحب کا دبئی سے بھی دل للچایا  مگر انکی چھٹیاں ساتھ نہ دیتی تھیں،  جب اعلان ہوا کہ روٹی کپڑا اور مکان اپنے اپنے ذمہ ، ہم صرف ادھر کے انتظامی امور سر انجام دیں گےتو، پاکستان سے بہت سے ممکنہ شرکاء ، جو بس پاؤں بہ رکاب و نے بہ دست تھے، نے  اسے وجہ دل شکنی جانا اور  اور پھر ہمارے پروگرام کے صفحہ پر منہہ بھی نہ کیا۔  چلو جی  البتہ جرمنی سے عمیر ملک   صاحب نے کنفرمیشن دے دی، جی وہی پانچویں درویش والے  بزرگ۔

پروگرام 
پروگرام  اپریل  کے اختتامی ہفتہ کا طے پایا،  اسکی دو وجوہات تھیں،   بہار کا  موسم  اور اٹلی کا نظر آنا، سردیوں میں سب کچھ ڈھکا ہوا ہوتا ہے سردی کیوجہ  سے،  سب کچھ سے مراد زمین پہاڑ وغیرہ  ہیں، سبزہ ، پھول  وکلی  نایاب،  ہوں بھی تو بس ایویں  شہدے سے۔  دوسری وجہ  یہ تھی کہ ہمارے ادھر 25 اپریل کو یوم آزادی کی چھٹی تھی، جمعرات کی، جمعہ کو ایک چھٹی کرنے  پر  ویک اینڈ شامل کیا جاسکتا تھا،  رونق کے چانس زیادہ تھے،   ویسے بھی ادھر یورپ میں کام کے دن کام اور چھٹی کے دن ہی چھٹی ہوتی ہے، ہاں اگر کسی ماہ بیچ ہفتہ کے کوئی چھٹی آجاوے تو وارے نیارے۔

پروگرام کی ترتیب کچھ یوں طے کی تھی کہ اگر دس تک بندے ہوجاتےہیں تو پھر وینس یونیورسٹی کے شعبہ  لسانیات الشرقیہ  کے ہال میں ایک مرکزی سیشن ہوتا،  دوسرا پادوا یونیورسٹی کے  شعبہ لسانیات کے ساتھ اور تیسرا،  بریشیا  میں پاک اٹلی پریس کلب   کے ساتھ، مطلب پاکستانی کمونٹی کے ساتھ ایک ملاقات، مگر  بیل منڈے نہ چڑھی،  علی نے فروری میں ٹکٹ کی نقل فیس بک پر پیسٹ کردی۔   مگر شرکاء کی تعداد کو دیکھتے ہوئے دوسروں کو تکلیف دینا مناسب  نہ سمجھا اور اپنی گاڑی میں ہی جلسہ گاہ قائم کرلی،    خیال ہوا کہ شرکاء کی مہمانداری ، مطلب  روٹی کپڑا اور مکان  کا ذمہ اپنے سر ہی لیا جائے،   ہیں ہی کتنے جنے، بس کانفرنس کو ملاقات  یاراں میں تبدیل کردیا گیا اور اسکی فارمل حیثیت ختم شد۔

جلسہ نےچونکہ ایک ملاقات کی شکل اختیار کرلی تھی،پس  میں   پوری  ڈیموکریسی سے  میں سب سے پوچھتا گیا کہ اس کے بعد یہ کرلیں، ادھر کو چلیں اور سارے شرکاء یہ سر ہلاتے پاءے جاتے۔ 

شرکاء
یاسر خوامخواہ جاپانی    صاحب کے سرکاری  طور پر معذرت کرلینے   اور خاو ر کھوکھر صاحب کے سلیمانی ٹوپی پہننے کے بعد ملغ دو عدد شرکاء بچے جو باہر سے آرہے تھے،  علی احسان  ایسٹونیا سے اور   عمیر ملک  جرمنی سے، انکے شہر کا نام مجھے آج تک یاد نہیں ہوسکا ، بس یہ سمجھ لو کہ لیپزگ سے ایک گھنٹے کے سفر پر ہے بقول انکے، اب   ایک ہفتہ پہلے  مجھ پر انکشاف ہوا کہ  پھنس گئے،   علی  احسان  ادھر بیرگامو ائیر پورٹ پر  23  تاریخ کو آرہے مطلب  منگل کو 2 بجے  اور  انکی اتوار 28 کی واپسی وہیں سے ہے،  اور عمیر ملک  وینس مارکوپولو  پر آرہے 24 تاریخ کو صبح  نو بجے اور واپسی سوموار 29 کو وہیں سے کررہے ہیں۔  مطلب ایک مجھ سے 230 کلو میٹر شمال میں اور دوسرے 70 کلو  جنوب میں ،    علی کو تو  میں نے  سوکھے منہہ کہہ دیا تھا کہ تم خود ہی آجانا،  یا کسی کو بھیج دوں گا   جو اردو بلاگز کا بورڈ پکڑے کھڑا ہوگا اور بعد میں تمہیں ٹرین پر بٹھا دے گا، بندہ راضی ہوگیا۔   اور عمیر کو نزدیک سے پک کرلوں گا ۔مگر  ایسا نہیں ہوا۔   دل نہیں مانا   ، کہ بندہ اتنی دور سے آئے اور وہ بھی پہلی بار ، اور اسے ائیر پورٹ  لینے بھی نہ  جاؤں،  صبح ہی گاڑی لے کر پولا پولا نکل لیا اور عین وقت مقررہ پر آمد کے گیٹ کے سامنے  موجود تھا،  رائن ائیر    ہے تو شہدی ائر لائن کہ دوران پرواز کھانے پینے کے بھی پیسے وصولتی ہے، پی آی اے کی طرز پر شاہی چوول، مگر اکثر پی آئی اے کے برعکس  اپنے مقررہ وقت سے 10 منٹ پہلے ہی پہنچتی ہے ، پس اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ وللہ  سامنے کھڑا ہوگیا گیٹ کے، بھانت بھانت کے لوگ نکل  رہے تھے ،  اور میں سوچ رہا تھا کہ  علی کو دیکھا بھی  نہیں ، نہ اس نے مجھے، نہ میرے ہاتھ میں بلاگرز کا کارڈ ہے، ایک دوجے کو کیسے پہچانیں گے۔   پھر ایک بندہ نکلا باہر  ، دیکھتے ہی بے اختیار ہاتھ ہل پڑا اور وہ حضرت بھی بغیر جھجکے  ادھر کو آلپکے، یہ گلے ملے گویا کوئی دو جنموں کے بچھڑ ہوئے اور بس پھر  ۔ ۔ ۔ ۔ ایک کے بعد ایک بولتا ہی رہا، ہمارے پاس بہت کچھ تھا  کہنے سننے کو، جس پر بات ہوتی رہی، بلا وقفہ،  بریشیا سے ان کو ایک ڈونر کباب کھلایا گیا کہ 3 بجے اور کیا ملتا،  اور پادووا کو روانہ ہوءے، وہی پولے پولے، موٹر وے پر نہیں بلکہ لوکل روڈ پر کہ چلوں کچھ منظر نظارہ  ہوجاوے۔  ہیں جی۔

دوسرے دن  ہم صبح ہی ایک گھنٹہ  لے کر  دونوں ایک ساتھ ایئر پورٹ  وینس مارکو پولو کو پہنچے،  10 منٹ لیٹ تھے، عمیر کا ایس ایم ایس  آچکا تھا اور اسے لیٹ ہونے کی اطلاع باہم کرچکے تھے،  ائیر پورٹ  کے اندر پہنچ کر میں ادھر آمد کی طرف کو تیز قدموں سے جارہا تھا کہ اہو ہو ، لیٹ ہوگئے ،  ادھر علی نے کہا وہ ایک بندہ عینک والا بیٹھا ہوا ہے، میں عمیر کی فیس بک پر عینک والی فوٹو ہی دیکھی تھی اور مجھے عینک ہی یاد تھی،  ہم ادھر کو لپکے تو وہ بندہ بھی تاک میں تھا کہ ہماری طرف کولپکا،  یہ بھی جس تپاک سے ملا، لگا کوئ اپنا ہی بچھڑا ہوا پیس ہے ۔

پادووا واپس آکر عمیر کو ناشتہ کے بعد سونے کا موقع دیا گیا اور میں اور علی ( اب چونکہ ہم ایک دوسرے کےساتھ فری ہوگئے ہیں لہذا شارٹ نام ہی چلیں گے) مطلب میں، عمیر اور علی، چلو جی،  باہر چہل قدمی، ڈرائیو کو نکل لئے۔اصل میں میرا ایک کام تھا۔ جو ائیر پورٹ سے واپسی پر رستہ میں کرنا تھا، بھول گیا، پھر 30کلو کا فاصلہ طے کرکے گیا، تو اگلا بندہ نکل چکا تھا، اور میں پرس ایک بار پر کافی پنیے کے بعد چھوڑ آیا، بیچ میں ڈرائیونگ لائسنس اور بنک کارڈ بھی تھے، پھر بھاگا بھاگا واپس گیا تو مل گیا مطلب 120 کلو کا پینڈ خوامخواہ میں اور علی بچارہ میرے ساتھ ایویں ہی کھجل ہوگیا۔ 

شرکاء کی کوالٹیفیکشن
  دونوں حضرات تالابان علم ہیں ،  اور نہایت برخوردار طبیعت کے واقع ہوئے ہیں،  ذاتی طور پر ان سے ملک کر مجھے ایسے لگا کہ بہت اچھے مسلمان ہیں،  علم  حاصل کرنا ہر مسلمان  مرد  اور عور ت پر فرض ہے کو دل جمی سے نبا   رہے ہیں،   بس عورت کا اس پورے پروگرام میں دور دور تک نام و نشان نہ تھا،   جس کو ہم اچھا مسلمان قرار دیتے  یا کردیتے۔  اول الزکر  ایسٹونیا میں واحد پاکستانی  طالبعلم ہیں اور سب سے زیادہ تعلیم یافتہ  پاکستانی بھی،  میرے خیال میں کیونکہ ادھر ہیں ہی کل تین جنے۔  مارکیٹنگ میں  پی ایچ ڈی کررہے ہیں،  دعا ہے کہ اللہ انکی شاگردی سے پاکستانیوں کو بچائے ۔ ثانی الزکر ادھر جرمنی میں بڑی برخورداری سے  موبائیل سافٹ انجینرنگ کررہے ہیں  ،  بس امید ہے جلد ہی کسی ملٹی نیشنل  کمپنی کے ہتھے چڑھ جاویں گے،  جو پاکستان کے حالات ہیں لگتا نہیں کہ انکا ادھر ٹکنا ممکن ہو، ہا ں اگر سیاہ ست یا اس طرح کا کچھ اور شغل اختیار کرلیں تو۔   میرے بارے میں دیگر جضرات سے معلوم کرلیجئے ،   اب بندہ اپنے بارے کیا لکھے، اچھا لکھے تو اپنی منہہ میاں مٹھو،  اور برا لکھنا اور اپنے کیڑے نکالنا  وہ بھی اپنے بارے ، یہ تو ممکن ہی نہیں، سو کریں  پاکستانی ہیں۔ یا یا

جاری ہے Inizio modulo



24 تبصرے:

  1. کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے مُلاقات کم کانفرنس کا مزہ آگیا پڑہ کر بہت شُکریہ جناب کا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے مُلاقات کم کانفرنس کا مزہ آگیا پڑہ کر بہت شُکریہ جناب کا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. راجہ صاھب بہت اچھی تحریر ہے مگر آپ سے شکایت بھی ہے کہ نئے بلاگر کو آآپ نے لفٹ ہی نہی کرائی شائد میں بھی شریک ہو جاتا

    جواب دیںحذف کریں
  4. محترم!۔
    آپ نے یہ تحریر لکھ کر دل باغ باغ کر دیا ہے اور جس دلچسپ انداز میں آپ نے نقشہ باندھا ہے اس سے سارے
    گلے شکوے ختم۔
    اللہ کا شکر ادار کریں کہ پرس مل گیا۔ ورنہ لائنس وغیرہ اور دیگر تمام اہم دستاویزات کو نئے سرے سے بنوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ یعنی کٹا کھل جاتا ہے اور خواری ہوتی ہے۔
    آئیندہ قسط کا شدت سے انتظار رہے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. راجہ صاحب، ملاقات کا حال آپ کی زبانی جان کر بہت اچھا لگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے دسترخوان پر برکت اور اس کی زینت ہمیشہ بڑھائے رکھے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  6. الطاف سیلانی صاحب، جنکو تو میں ذاتی طور پر جانتا تھا، کہ بلاگر ہیں اور ادھر آسے پاسے رہتے ہیں انکو تو ترہونے کی فل کوشش کی، آپ رہ گئے اس بار، ویسے عمیر خود سے ہی کہیں سے پھٹک پڑے تھے، میری ان سے فیس بکی بھی کوئی 2 ہفتے پہلے ہوئی، آپ ادھر ٹالن کا پروغرام کرلیں، ہم نے کنڈا پھینک دیا ہے، آپ بھی پھنس جاویں۔ ہین جی

    جواب دیںحذف کریں
  7. محمد سلیم صاحب پسندیدگی کےلئے بندہ تہہ دل سے مشکور ہے، آپ اور دیگر احباب کی دعاؤں کی اشد ضرورت ہے، امید ہے کہ آپ آئندہ بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. گوندل صاحب، آپ کا گلہ شکوہ بنتا تھا آپ سے باوجود خواہش کے ٹیلیفونک رابطہ نہ ہوسکا، خیر یار زندہ صحبت باقی، آپ اگلے بہار میں اپنی خیر منا لیں، اگر موسم بنا تو اندلس یں اکٹھے ہوجاویں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. دوھرا ح صاحب، یہ کانفرس کا پروٹوکول ختم کرکے ملاقات الاقرباء ہی رہ گئی تھی، باوجود اس کے بیچ میں اردو بلاگنگ کو ہم نے کھینچے رکھا، بس جتنے لوگ تھے، البتہ نام کا پروٹوکول ہم نے نہیں اتارا، اخیر تک، پسندیدگی کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  10. آپ کے علاقہ کا ایک اچھا چوہدری ذوالفقار علی آدمی کل صبح اسلام آباد میں ہلاک کر دیا گیا ۔ وہ ضلع جہلم میں گاؤں کوٹھہ سواریہ کا رہنے والا تھا جہاں آج نمازِ جنازہ کے بعد اُسے دفن کر دیا جائے گا ۔ چوہدری ذوالفقار علی ایف آئی اے کا پروسیکیوٹر جنرل تھا اور اہم کیسوں جیسے بینظیر قتل ۔ حج سکینڈل وغیرہ کی پیروی حکومت کے وکیل کے طور پر کر رہا تھا

    جواب دیںحذف کریں
  11. ہا ہا ہا
    بڑی یاداشت ہے راجہ صیب قسم سے ایک ایک بات لکھ دی
    :)
    اللہ خوش رکھے جی آپکو۔ آپکی تعریف ہمارے بلاگ کے ذمے رہی کسی دن کس بل نکالیں گے آپکے
    :p

    جواب دیںحذف کریں
  12. عمدہ انداز میں لکھا!! ہمیں تو آپ نے آفر ہی نہیں کیا!! وہ الگ بات ہے ہم نے آنا ہی نہیں تھا مگر بندہ آفر تو کر دیتا ہے!!۔
    کچھ نہیں یہ ہی کہتے ہھرتے یار اٹلی میں اردو بلاگرز کانفرنس ہے دعوت آئی ہے مگر مصروفیت کی وجہ سے جا نہیں سکتا!! اور کون سا اٹلی والوں نے ہمیں ویزہ دینا تھا!

    جواب دیںحذف کریں
  13. بہت خوب روداد لکھی ہے ۔ماشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  14. راجہ جی بہت بہت معذرت
    انشاءاللہ آپ سب کی شکایت تلافی ضرور کروں گا۔
    بندہ مزدور بہت اوکھا ہوتا ہے جی

    جواب دیںحذف کریں
  15. جاپانی صاحب، سرجی ہم نے کون شی شکایت کی ہے، بس رپورٹ لکھ، البتہ آپ کو یاد سب نے بہت کیا، میرا بھی بہت دل کررہا تھا کہ آپ سے ملاقات ہو ہی جاتی،

    جواب دیںحذف کریں
  16. کوثر بیگ صاحبہ
    پسندیدگی کےلئے شکریہ، آپ کی حوصلہ افزائی بہت بڑا سرمایہ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  17. شعیب صفدر بھائی جی،
    ہم نے تو دعوت عام دی ہوءی تھی، اگر آپ نے آنا تھا تو ویزہ اتنا بڑا ایشو نہیں تھا، آپ خود کہہ دیتے، مین نے تو ان سب سے رابطہ کیا جن کے آنے کی توقع تھی یا جنہوں نے خواہش ظاہر کی، چلیں آپ ٹالن کےلئے تیاری پھڑ لیں، یا پھر اگلے بہار میں اندلس کو، نکل لیتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  18. علی صاحب حضرت جی، ابھی تو شروع کیا ہوا، اگے آگے دیکھئے، آپ کے بلاگ کا انتظار رہے گا

    جواب دیںحذف کریں
  19. افتخار اجمل انکل،
    جی بلکل وہ اپنے جاننے والے ہیں، اور شریف آدمی تھے، اللہ مغفرت کرے انکی اور اس ذرداری اینڈ کو کا بیڑا غرق کرے، سب انہی کا کیا دھرا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  20. جب ہم اپنی آکسفورڈ گردی میں مصروف تھے تو علی کا پیغام ملا تھا اس کانفرنس کے سلسلے میں. چھٹیوں کی قلت اور ویزا بروقت نہ اپلائی کر پانے کی سستی نے شامل نہ ہونے دیا مگر اگلی بار کی نیت کر چھوڑی ہے. اگے ویکھو کیا بنتا ہے.
    روداد پڑھ کر مزہ آیا اگلے حصہ کا انتظار رہے گا.

    جواب دیںحذف کریں
  21. ماشاء اللہ جناب
    اپنی جیلسی دور کرنے کیلئے ہمیں ڈبل جیلس کرگئے آپ :ڈ
    ویسے بڑی غیر پارلیمانی قسم کی کانفرنس تھی یہ :)

    جواب دیںحذف کریں
  22. بے نام صاحب،
    یہ تو پھر ہوتا ہے، کانفرنس کا پروٹوکول تو ہم نے شرگاء کی تعداد کنفرم ہوتے ہی منسوخ کردیا ہے تھا، البتہ غیر پارلیمانی کیس ہو گئی ؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  23. راءے صاحب بس آپ اردہ پکا رکھیں، اللہ خیر تے بیڑے پار، ہیں جی، یار زندہ تے صحبت باقی اگلی واری سہی

    جواب دیںحذف کریں
  24. لکھتے تو آپ بھی کمال ہیں یار

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں