ملک یونان سے ہماری واقفیت مرحلہ وار ہوئی تو اس کو اسی
تربیت سے بیان کیا جاتا ہے
حکیم محمد یوسف
(یونانی)
یونا ن سے ہمارا واسطہ حکیم محمدیوسف (یونانی)
آئمہ پٹھاناں والے کے مطب پر لکھی تختی سے ہی ہوتا تھا، ادھر بھی ہمارا
جانا تب ہی ہوتا جب بھینسیں گم ہوجاتیں اور ہماری ڈیوٹی ادھر شمال کو ڈھونڈنے کی ہوتی، گزرتے ہوئے اگر حکیم صاحب جو نہایت
نیک صورت و سیرت بزرگ تھے باہر سڑک پر دھوپ
سینکتے نظر آجاتے ، تو ان سے پوچھ لیتے
کہ حکیم صاحب سلام، کہیں آپ نے ہماری مجھیں تو ادھر جاتی نہیں دیکھیں، باوجود اس
کے کہ ہمیں انکا جواب معلوم ہوتا کہ : " پتر میں تو ابھی ایک مریض کو چیک
کرکےنکلاہوں"۔
اسکندر اعظم عرف سکندر یونانی
اس شخصیت کے بارے ہمیں
اپنے چڑھتی جوانی سے پہلے ہی علم
ہوچکا تھا، میاں لطیف صاحب اکثر جمعہ کا
خطبہ دیتے ہوئے نعرہ مارتے " گیا جب
اسکندر اس دنیا سے تو اسکے ہاتھ خالی تھے" تب ہم میاں جی کے علم کے اور انکے پہنچے ہوئے
ہونے کے" فل "قائل تھے ، پھر
یہی نعرہ ہم نے بعد میں بھیک شہر میں بھیک
مانگنے والوں سے بھی سنا تو وہ بھی بہت دور تک پہنچتے ہوئے لگے جبکہ ہم بھی ان سے
دور رہنے کی کوشش کرتے۔ ہمارے پنڈ کے
تاریخ دان بابوں کا خیال تھا بلکہ
سرٹیفائیڈ بات تھی کہ اسکندر اعظم کی فوج نے جو دریائے جہلم عبور کیا راتوں رات تو
ہو نہ ہو، یہ ہمارے گاؤں کے مقام سے تھا اور اس میں لازمی طور پر ہمارے گاؤں والوں کی ملی بھگت بھی رہی ہوگی،
جبکہ ہمارے دوست غ کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے جب ماسی ضہری ادھر گلی میں سے ککڑ تو گزرنے نہیں دیتی ، کوئی ڈیڑھ
سوگالی ہمیں دیتی ہے اگر دن میں دوسری بار ادھر جاتے دیکھ لے تو، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسکندر یونانی ادھر سے
نکل لیا ار ماسی ضہری کو پتا نہ چلا، اسلئے یہ سب بکواس ہے، بابا لوگ ایویں ہی اپنے نمبر ٹانگ رہے ہوتے ہیں، پھر
اسکے ساتھ فوجی بھی تھے، فوجیوں کی ایسی
کی تیسی جو ہمارے ادھر سے گزریں بھی ، انکوپتا ہے کہ یہ علاقہ" آوٹ آف باؤنڈ "
ہے
حکمت یونانی
یونانی حکمت کا ہم
تب علم حاصل ہوا جب علم معالجات پڑھنے کی
ٹھانی، کہ یہ علم طب کی وہ قسم ہے جس کو یونان نے بہت فروغ دیا، پھر ادھر سے عربوں
تک پہنچا اور پھر ادھر ہمارے پاس، اس علم میں چار علتیں بیان کی جاتیں : خون،
سودا، صفرا اور بلغم اور علا ج بلضد کے
طور پر معالجات ہیں ابتداء میں جڑی بوٹی
اور پھر مختلف معدنیات وہ زہریں استعمال
ہوتیں، ہمارے لئے دلچسپی کاباعث "کشتے
" ہوتے ، جی بلکل وہی والے جو
" بوڑھے کو جوان اور جوان کو فٹ " کردیتے ہیں۔مگر ایسا کشتہ بیچنے والے
تو بہت ملے مگر بتانے والا کوئی نہ ملا، اگر کوئی حکیم تب بتادیتا تو ہم بھی
" دکان بڑھاجاتے"۔
مولبی انور حسین قادری
یہ مولبی جی سرائے عالمگیر سے آتے تھے اوراپنے سفید کرتے
پاجامہ اور سبز پگڑی پھر لہک لہک کے نعتیں
گانے کی وجہ سے ہمارے گروپ میں فل مشہورتھے بلکہ بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتے،
اندر سے پورے لچے اور تاڑو تھے جبکہ اوپر سے بہوت شریف ، انکی ہمارے مشٹنڈا گروپ
میں شمولیت ہمارے لئے انتظامیہ کی نظروں
میں شریف بننے کی ایک کوشش تھی۔ تیسرے
درجے میں جب ہم پہنچے تو ایک دم سے
مولبی جی غائب ، معلوم ہوا کہ یونان چلےگئے، ان ہی دنوں یہ خبریں آنے لگیں کہیونان کے ذریعے ایجنٹ یورپ میں پہنچاتےہیں، بس بندہ کسی طریقہ سے ترکی پہنچے تو
ادھر سے یونان اور پھر یورپ کی اینٹری، ہیں جی۔اور ادھر یورپ میں گوریاں، پس مولبی
جی قسمت پر رشک کرتے ، ہیں جی ، کہ لٹ
موجاں گئے ہیں یہ مولبی جی تو، ہیں جی
چلتے ہو تو یونان کو چلئے
اٹلی آکر احباب سے
علم حاصل ہوا کہ ہمیں یونان پہنچنا چاہئے۔ اسکی دو وجوہا ت تھیں
ہمارے لئے، مولبی جی کے علاوہ ایک تو یہ کہ ہمارے ہیلنک ہومیوپیتھیک میڈیکلایسوسی ایشن کا کورس اور دوسرے ادھر کاغذ کھلے ہوئے ہیں، مطلب
پھر ہم ویزہ کے جنجھٹ سے آزاد ہوجائیں گے۔
تو بس جناب پہنچ گئے ادھر کو یوں
مارچ 1998 کو، اب ادھر اپنے جاننے والے تو کافی تھے، ہمارا کام ہوتا پڑھنا اور فارغ رہنا،
پھر کاغذوں کی فکر ہوئی تو جانے کیسے کچھ جاننے والوں نے ایک دن ایک سفید کارڈ
ہمارے ہاتھ لا کر دے دیا کہ جی آپ کی
"سفید خرطی بن گئی" اور ہم اسی پر خوش، اس کے بعد سبز ہوئیں گی اور پھر آپ ادھر پکے، ہائے ہائے کیا دن تھے ہیں جی، دن بھر ادھر انگریزی بولو، شام کو ہیلنااسپرانتو ایسوسی ایشن کے کسی پنچ ست
ممبران کے ٹولے کے ساتھ گپیں اسپرانتو میں
اور پھر رات کو ڈیرے پر آکر پنجابی بولو، ہیں جی، البتہ تب
کچھ کچھ چیزیں یونانی زبان کی بھی سمجھ آتیں ، جن میں "مالاکا " اور "ماگا" کے
دوالفاظ ہمارے کانوں میں اکثر پڑتے اور پھر تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ دونوں
گالیوں کے زمرے میں آتے ہیں ، پس ہم نے
بھی یونانی زبان صرف گالیوں کی حد تک ہی سیکھی ، اب ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ
ہمیں صرف دو گالیاں ہی یاد تھیں، یاد تو بہت سی تھیں مگر اب یہ دو ہی دماغ میں
رہ گئی ہیں۔
پھر جناب ادھر جون اور جولائی کے دن اور بیچز
"کالاماکی " کے اور ہم ، ایک
پرانی جینز کا کاٹا اور ادھر گھٹنو ں تیک اور پھر پورا دن لگا کر اسکے دھاگے نکال کے "پھمن "
بنائے اور نیچے نائیک کے کالے جوگرز ، اور
رے بین کی عینک زیب تن کئے ہم ادھر
امونیا اسکوائیر سے کالاماکی تک پھر تے کئے،
تب یونانی دیویاں غیر ملکیوں پر
اتنی کرم نواز نہیں تھیں۔ بس دور دور ہی
رہتیں اور ہم راجہ اندر کی طرح اپنی کورس میٹس میں نہایت شریف اور مسلمان ہونے کے
گھرے رہتے ۔ ہیں جی، کبھی کبھی شریفت کا حجاب بھی بندے کو کھجل کرکے رکھ دیتا
ہے۔
مولبی انور قادری کوبھی ادھر ڈھونڈھ نکالا مگر معلوم ہوا کہ
یہ بندہ کسی کام نہیں رہا، ادھر آکر پکا مولبی ہوگیا ہے اور یہ کہ مسجد سے باہر
کسی سے ملتا ہی نہیں، کام اور پھر مسجد، گویا انک کی کایا کلپ ہوگئی ہے۔ ہیں جی
ویک اینڈ کا مزہ
ادھر سمجھ آئی کہ وییک اینڈ کیا ہوتا ہے، ملازمین کو تنخواہ
جمعہ کی شام کو ملتی اور اگر ہفتہ کو کام نہیں کرنا تو بس پھر آپ کا ویک اینڈ
شروع، آپ کی جیب میں کوئ پچیس تیس ہزار درخمے پڑے ہیں جو عوامی تنخواہ تھی تو
پھر کرو موجاں، یار لوگ جمعہ کی شام کو
ہی بئیر کے گلاس پر "پارئیا"
کرنے مطلب گپ لگانے چلے جاتے اور رات کو دو دو بجے لوٹتے ، جو ہفتے کو کام کرتے وہ
ہفتے کی شام کو نکل لیتے۔
بتی والا گھر
ہماری یاری چوہدری رمضان کے ساتھ تھی کہ ہمارے ساتھ کے پنڈ
کا تھا اور جب پاکستان میں تھا توہماری زمین میں ٹریکٹر سے ہل چلایاکرتا تھا، جانے
کب ادھر کو نکل آیا، ایک دن جمعہ کی رات
کو ٹن ہوکر آیا تو کہنے لگا : :ڈاکٹر آپ بتی آلے گھر گئے؟" نہ چوہدری وہ کیا
ہوتا ہے اور کدھر ہوتا؟ لو دسو آپ کو بتی آلے گھر کا نہیں پتا ، ایسا نہیں
ہوسکتا، وائی کسمیں چوہدری نہیں
پتا، میں ماننے والا تو نہیں مگر آپ کہتے
ہو تو مان لیتا ہوں ، بس آپ کل تیار ہوجاؤ صبح ہی اور ہم نکل لیں گے، مگر کسی کے
سامنے نام نہ لینا، اب اتنے مولبی تو ہم بھی نہ تھے سنا ہوا تو سارا کچھ تھا، پس
کل کا پروغرام دماغ میں لے کر سورہے۔
دوسرے دن "ارلی ان دی مارننگ" مطلب کوئی گیارہ
بجے آنکھ کھلی ، اور ناشتہ ، اگلے ہفتے کی خریداری، تین بجے فارغ ہوکر ، رمضان نے
آنکھ ٹکائی کہ نکل ، اور ہم جو دیر سے اس لمحے کو "اڈیک" رہے تھے پس نکل لئے، آج ہمارے دل میں چور تھا۔ ہیں جی۔
اومونیا اسکوارئر کو پہنچے اور ادھر دیکھا کہ کوئی پاکستانی تو نہیں دیکھ
رہا ، کم ازکم مولبی انور تو نہیں گھوم رہا۔ ہیں جی
اور کسی چور کی طرح رمضان کے پیچھے چلتے رہے، اس دن اسکی
چال واقعی کسی چوہدری کی چال تھی، پورے لطف میں تھا۔
بس پھر ہم
"پلاکا" کی گلیوں میں
گھومتے رہے، ان گلیوں میں جو ایتھنز کا قدیم مطلب انٹیک حصہ تھا۔
بس پھر رمضان نے ہمارے ہاتھ دبایا یہ یہ جو گھر ہیں جن کے دروازے پر دن دھیاڑے جو بلب جل رہا ہے
"گویا سورج کو چراغ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے" یہ ہی ہماری منزل مقصود
ہے اور ادھر ہی سے وہ گوہر نایاب ملنے والا ہے۔
مگر اس میں نہیں جانا کہ ادھر مال پرانا ہوتا ہے، ادھر بھی
نہیں جانا کہ ادھر مال مہنگا ہے ، ان کے
بستر گندے ہیں، یہ والے غیرملکیوں کو پسند نہیں کرتے، یہ والے ، بس ہم پہنچ گئے،
ادھر کھلے دروازے میں سے ہم لوگ اندر گھسے تو بس کچھ کچھ اور ہی منظر تھا، عجیب سرخ کی روشنی میں نہا سے گئے، ایک بڑا سا ہال تھا اور اسکے کونے میں کرسی پر
ایک پرانی پھاپھڑ قسم کی مائی نے بہت بڑا منہ کھول کر ہمیں " یاسس " کہا
جواب رمضان نے ہی دیا اور لگے ہاتھوں اسکا احوال بھی پوچھ ڈالا اور یہ بھی بتادیا
یہ "یاترو" ہے جو پاکستان سے آیا ہے اور ادھر اسکی خدمت کرنا مانگتا،
رمضان نے اشارہ کیا اور اسکے ساتھ ہی میں بھی کرسی پر ٹک سا گیا۔ بس پھر غور کیا تو اس ہال میں دونوں طرف اور
سامنے چھوٹی چھوٹی گیلریاں
تھیں جنکے اندر دونوں اطراف میں دروازے تھے ، شایدکمرے
ہوں گے۔
ہمارے بیٹھے بیٹھے ہی ایک دروازہ کھلا اور ایک لڑکی اس میں سے نمودار ہوئی، بس لڑکی کیا جناب، ایک
حسینہ وہ جمیلہ، وہ بھی صرف بریزیر اور چڈی میں، ہائے ہائے، ہمارا تو بس دل ہی دہل
گیا، ہیں جی، ہمارے ادھر سامنے سے ہماری
آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے ، دیدے مٹکاکر گزری اور یاسسس کہتی ہوئی ، گویا ہمیں دعوت شباب و شتاب دی جارہی ہے، ایک کمرے میں دوسری طرف
گھس گئی۔ ہم تو
قریب المرگ ہی ہوگئے تھے قسمیں۔ پر
رمضان نے ہاتھ تھپ تھپایا اور کہا پولا سا ہمارے کان میں کہ یہ وہ مال نہیں ، صبر۔
پھر ایک اور ، ہیں
جی
پھر ایک اور ، اور پھر ایک اور ہیں۔
اور پھر رمضان نے بڈھی سے کسی کا پوچھا اور انکار ی
جواب پاکر ہم کو اشارہ کہ ادھر سے نکل، کہ وہ مال نہیں ہے ۔ باہر آکر
بولا کہ ادھر وہ دانہ نہیں ہے ایک اور جگہ
چلتے ہیں ، راستے میں دوچار دروازوں میں
داخل ہوئے اور تھوڑی دیر مال دیکھا اور پھر نکل لیئے، کہیں رمضان کو مطلوبہ بندی
نہ نظر آئی اور کہیں پیسے زیادہ تھے۔ پھر
ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور "یہ چیز "کا
نعرہ رمضان نے مارا ، لڑکی حسب دستور یاسس کہہ کر دیدے مٹکاتی اور کولہے ہلاتی
ہمارے سامنے سے گزر گئی اور ہم دل پکڑ کررہ گئے۔ ہیں جی لڑکی تھی یا قیامت ، ہیں
جی، دل میں ہی کھب گئی اور ہم ہزار جان
عاشق ہوگئے۔ ہیں جی
رمضان نے بات کی مائی سے ، چھ ہزار مبلغ میں بات طے پائی
اور رمضان نے مجھے کہا کو وہ دائیں کو سامنےآلے کمرے میں ہو لو، مگر وہی چولوں والی حرکتیں ہماری کہ نہ چوہدری
پہلے تم ، ہیں جی، آخر میں عمر میں ہم سے
بڑا تھا۔ ہیں جی ، اور وڈوں کو احترام ہی
تو ہم نے سیکھا ہے۔چونکہ یہ پہلی بار تھی ادھر جانے کی تو ایک جھجک سی بھی شاید ، یا پھر خورے کیوں؟ ہیں جی۔
رمضان میری طرف غور
سے دیکھتا ہوا ، پولا سا اٹھ کر اس دروازے میں داخل ہوگیا، اب میں ادھر بیٹھ ہوا تھا اور ادھر ادھر دیکھنے اور اواسیاں لینے
کے علاوہ میرے پاس کچھ کرنے کو نہ تھا۔
چند منٹ بعد ایک آدمی نکلا بیلٹ باندھتا ہوا، شاید اسی کمرے سے نکلا تھا جس میں سے وہ حسینہ
برآمد ہوئی تھی یا اسکے سامنے والے سے۔
ہیں جی، پر سانوں کی؟ ہیں جی۔
کوئی پندرہ بیس منٹ کے انتظار کے بعد وہی دل چیر حسینہ پھر
برآمد ہوئی اور ہمیں یاسس کہتی ہوئی اس
بار بڈھی کے اشارے پر رمضان کے کمرہ میں، اس دوران ہم نے نوٹ کیا کہ ہماری طرح کے
کافی لوگ آکر جابھی چکے تھے ہر آنے والے
کہ چہر ے پر ایک مسکراہٹ بھی تھی یا کچھ
روشنی سی۔ اور یہ بھی کہ مختلف اطراف سے تین چار لڑکیاں ایک گیلری کے دروازے سے نکل کردوسری گیلری کے دروازے میں داخل
ہورہی تھیں اور انکے پیچھے سے کچھ دیر بعد کوئی بندہ بھی نکلتا اور نظریں
چراتاہوا ہمارے سامنے سے گزر کے باہر کا
منہہ کرتا، تب کوئی بھی سلام دعا نہ کررہا
تھا، شاید انکو یاد نہ رہتی ہوگی، ہیں جی ، آخر بندہ بے دھیانہ بھی تو ہوہی جاتا
ہے، ہیں جی۔
پھر ہم نے نوٹ کیا
کہ اسی دروازے سے جدھر سے وہ حسینہ عالم برآمد ہوئی ایک آدمی بیلٹ کستا ہوا نکلا
اور بڈھی تب تک ایک اور بندے سے چھ ہزار درخمے لےکر اسے اس کمرے سے پہلے میں جانے کا اشارہ کرچکی تھی۔
کچھ دیر بعد شاید بیس منٹ کے بعد رمضان والا دروازہ کھلا
اور وہ ہی حسینہ نکلی اور ہمیں یاسس کہہ کر دعوت دیتی ہوئی بڈھی کے اشارے پر دوسرے
والے کمرے میں چلی گئی، رمضان بھی تھوڑی دیر بعد نکلا اور منہہ نیچے کرکے مجھے سے
پوچھا" ہاں ؟ ہے پروغرام؟ " جانے کیوں میرے منہہ سے نکل گیا نہیں
یار، پر کیوں؟ رمضان پر حیرت ٹوٹ
پڑی، اس سے خوب مال پورے ایتھنز میں کہیں
نہیں ملے گا، پر میرا دل نہیں ہے، پر کیوں؟ پیسے میں دوں گا، نہیں یار میرا دل
نہیں کررہا ، چل واپس چلیں، پر
کیوں؟ کیا ہوا ؟ اگر یہ والی پسند نہیں ہے
تو کسی اور جگہ چلیں؟ میری نظر میں اور بھی
مال ہے۔ نہیں یار میری طبیعت صحیح نہیں ہے، گھر کو چل۔ اچھا چل کچھ کھاتو
لیتے ہیں، تو کھالے یار میرا دل
نہیں۔ چل اب آئے ہیں تو تیرو پتا ہی کھالے ، نہیں یار میرا دل نہیں تو کھالے میں
ادھر ہی ہوں تیرے ساتھ بیٹھاتا ہوں۔
شاید میرا من ہی مارا گیا تھا۔ شاید مجھے وہ میکانزم سمجھ
آگیا تھا، شاید میں بہت سیانا تھا اور دور
کی سوچ رہا تھا، نہیں شاید واقعی میری طبیعت خراب ہوگئی تھی، مگر ایک بات ہے ، اسکے بعد بھی جب کبھی اس
علاقے سے یا اس جیسے کسی محلے سے گزر ہا
تو ، اندر جھانکنے کا حوصلہ نہ پڑتا اور جب بھی اس بتی والے گھر کے بارے میں ذکر
ہوتا ہے میری طبیعت اب بھی خراب ہوجاتی ہے۔ ویسے بندے کو ایڈا وی حساس نہیں ہونا چاہئے۔ ہیں جی
ایک وضاحت، رات کو نہ لکھ سکے اس پوسٹ کا عذاب ثواب علی حسن پر ہے، کہ یہ بندہ ہمیشہ ایسی آدھی سی پوسٹ لکھ کر ہمیں ٹینش دلوادیتا ہے، کہ جی بس پرانی یادوں میں غوتے لگاؤ اور کھوتے بنو
ایک وضاحت، رات کو نہ لکھ سکے اس پوسٹ کا عذاب ثواب علی حسن پر ہے، کہ یہ بندہ ہمیشہ ایسی آدھی سی پوسٹ لکھ کر ہمیں ٹینش دلوادیتا ہے، کہ جی بس پرانی یادوں میں غوتے لگاؤ اور کھوتے بنو
بڑی خوشی ہوئی جی پڑھ کر
جواب دیںحذف کریںقسمے ہم سمجھتےتھے ایک ہمارا ہی دماغ چلا ہوا ہے اس دنیا ہمیں
آج تو جاپانی صیب والا :ڈ کرنے کو دل کر رہا ہے
تو
:ڈ:ڈ:ڈ:ڈ
بندہ پیسے دیتا نہیں گھنٹے کے اور مانگتا گھر والی ۔ ہیں جی؟
جواب دیںحذف کریںعلی صاحب آپ کو کس بات پر خوشی ہوگئی ہے جی اچانک
جواب دیںحذف کریںاور بدتمیز صاحب، یہ گھنٹے کے پیسوں کا چکر نہیں بلکہ کچھ اور وجہ تھی، رہی بات گھر والی کی تو وہ الگ معاملہ ہے، میرا خیال ہے کہ دونوں کا ایک دوسرے کا ساتھ کوئی لین دین نہین
جواب دیںحذف کریںکبھی کبھی شریفت کا حجاب بھی بندے کو کھجل کرکے رکھ دیتا ہے۔ ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںآپ کا مندرجہ بلا جملہ ممکن ہے کلسک سمجھا جائے مگر میری رائے میں شریفت یا شرافت وہ پہلو ہے ۔ جس پہ آپ کو جتنا بھی فخر ہو ۔کم ہے۔اور " اور شریفت" کبھی بھی کجھل نہیں کرتی بلکہ اللہ تعالٰی نے ہر انسان اور مسلمانوں کے کے اندر خصوصی طور پہ ایک ایسا میکانزم فٹ کر رکھا ہے جو کسی نہ کسی طور اسوقت ایک خود کار طریقے سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے جب انسان پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے لگتا ہے۔ اور جہاں وہ اپنے ضمیر کے سامنے زندہ رہتا ہے۔ وہیں وہ گناہ کے علاوہ بعد از گناہ کی ڈ ھیر ساری پیچیددگیوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔
ہمارے نزدیک شرافت یا "شریفت" ایک "کوالٹی " ہے اور یہ انسانی خمیر و ضمیر کا پہلا بنیادی جُز ہے اور اس جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
"بتی والے گھر " کا لنک آپ نے بتی گھر کے باب کے شروع میں چسپاں کیا ہے ۔ مکمل تحریر پڑھنے سے پہلے اس پہ کلک کی اور شیطان پہ لعنت بیجھتے بند کر دیا۔ ممکن ہو تو یہ لنک ہٹا دیں کہ اس کا گناہ آپ کو بھی ملے گا۔ جس نے گندی سائٹس ڈھوندنی ہیں وہ خود ڈھونڈھے آپ کیوں یہ گناہ اپنے سر لیتے ہیں۔
راجہ جی ۔۔۔جاوید گوندل صاحب کا تبصرہ ہی میرا تبصرہ سمجھا جائے۔
جواب دیںحذف کریںجاوید صاحب، وہ لنک ہٹادیا گیا، نشان دہی کےلئے شکریہ،
جواب دیںحذف کریںشراف کے بارے میرا خیال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ یہ آٹکومیٹکی ہی ایکٹو ہوجاتی ہے، ہیں جی
یاسر جی انج تو نہ کرو، نصیب اپنا اپنا، تبصرہ اپنا اپنا
جواب دیںحذف کریںراجہ جی میں کیونکہ ہر اچھی بات کرنے والے کا مرید ہوں ۔۔شاہ جی ہوں تو کیا ہوا جی۔
جواب دیںحذف کریںاس لئے ہمارے مرشد جاوید گوندل صاحب نے جب گل مکا دی تو ہماری کیا اوقات جی
پڑھ کر اس واسطے بڑی خوشی ہوئی ہم سمجھتے تھے ایک ہم عقل سے پیدل پائے جاتے ہیں اس دنیا میں لیکن آپ سے ملکر اطمننان ہوا کہ ہم اکیلے نہیں"
جواب دیںحذف کریںگویا دونوں ان انٹینشلی شرافت ایکٹیویٹڈ ہیں، ہن سمجھے ہو
ساڈے ملتان میں ایک ہے حرم گیٹ وہ وہاں کی بتی والی گلی ہے بڑی خواہش ہے کہ وہاں جا کر دیکھیں کہ ساری کہانی ہے کیا لیکن ایک آدھ بار گزرنا پڑ بھی گیا تو مجال ہے جو نامراد آنکھیں بھول کر عمارتیں ہی دیکھ لیتیں بس سڑک کا میٹریل ہی چیک ہوتا رہا جب تک گلی گزر نہ گئی۔
میں تو کہتا ہوں ملیں اور کوئی مل کر غم غلط کریں
یاسر جی، پر میں نے ادھر کونسا اچھا کام کردیا، یہ تو ایک رام کہانی تھی جو فرمائیش پر سنادی گئی، نتیجہ کچھ بھی نہیں، بس ایویں ہی
جواب دیںحذف کریںعلی صاحب، اگر آپ وی ہمارے جیسے ہی ہیں جیسا کہ ہمیں پہلے بھی شک تھا تو پھر رہن دو، ویسے میری خواہش ہے کہ آپ سے اگلی ملاقات ادھر سٹالن میں ہی ہو، اور پھر کیا خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو
جواب دیںحذف کریںاگر سٹالن سے مراد تالن ہے تو جم جم آئو
جواب دیںحذف کریںہاں جی تالن ہی لکھنا چاہ رہا تھا مگر چونکہ پنجابی میں بہت ڈاہڈھی گالی ہے اور ہم اپنی شریفت کی وجہ سے اسکو ٹالن کہتےہین مگر ہمارے دماغ میں سٹالن گراڈ ہی گھومتا رہتا ہے جو بعد از سقوط روس سینٹ پیٹر برگ ہوا، بہر حال جہاں آپ ادھر ہی کی بات ہورہی
جواب دیںحذف کریںیورپ والوں کے پاس ایسے قصے بہت ہوتے ہیں۔ امید ہے ہمارے پاس بھی ہوں گے کبھی۔ ابھی نئے نئے ہیں تو ذرا محدود سے ہیں۔ دیکھتے ہیں ہماری تحریروں کے آخری پیراگراف کس قسم کے ہوتے ہیں مستقبل میں۔
جواب دیںحذف کریںیہ آپ کی بھول ہے جی یہ صرف یورپ والوں کےہی نہیں ہوتے ساری دنیا میں چلتا ہے سب کچھ اوپر علی صاحب ملتان کا ذکر کررہے تھے، لاہور کا شاہی محلہ بہت مشہور ہے، جب ذکر یورپ کا ہو تو پھر ایمسٹرڈیم کبھی نمبر ایک ہوا کرتا تھا اس تماشے میں، ابھی کا معلوم نہیں، آپ کے پاس بھی ہیں تو ضرور لکھیں جم جم لکھیں، بلکہ یہ سب کچھ سب کے پاس ہے، کوئی لکھ پاتا ہے کوئی نہیں، میں بھی کوئی 15 برس بعد لکھ پایا، اگر علی کا سفر نامہ نہ ہوتا تو اور چند برس گزر جاتے یا پھر کبھی لکھتا ہی نہ۔
جواب دیںحذف کریںسفرنامہ تو اچھا ہے،اب یورپی ملکوں کا سفرنامہ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔
جواب دیںحذف کریںباقی کی باتیں کو احباب پہلے ہی فرما چکے۔