ہومیوپیتھک ادویات
کی تیاری میں ایک لفظ وہیکل استعمال کیا جاتا ہے اس سے مراد ہے کوئی ایسی چیز جو دوا یا ادویاتی
مادہ کو جسم کے اندر پہنچانے کا کام کرے یا کرتا ہے، بلکل ایسے ہی جیسے ہم لوگ عام
اشیاء کی ترسیل کےلئے وہکلز استعمال کرتے
ہیں مثلاُ موٹر وہیککلز یا ہیوی وہیکلز
وغیرہ ۔ اس وہیکل کی خاصیت یہ ہونی چاہئے
کہ اسکے اپنے کوئی اددیاتی اثرات نہ ہوں اور دوا کو طویل عرصہ تک محفوظ رکھے۔
بنیادی طور پر ہومیوپیتھک
فارمیسی میں 3 وہیکلز استعمال ہوتے ہیں پانی ، کیونکہ بہت سے مادے پانی میں حل ہوتے ہیں
، شوگر آف ملک ، وہ معدنیات جو پانی میں
حل نہیں ہوتی انکو شوگر آف ملک کے اندر رگڑ کا مکس کیا جاتا ہے اور پھر پانی میں حل کیا جاتا ہے، اور
تیسرا وہیکل الکحل ہے اس کا استعمال ابتدائی طور پر جابر بن حیان
نام کےمسلمان سائنسدان نے کیا کہ
پارہ کےلئے واحد محلل ہے ۔ پھر بعد میں
تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ اس کےاندر ادویات کو محفوظ رکھنے کی خوب صلاحیت ہے اور
برس ہابرس تک دیگر عناصر کو اپنے اندر محفوظ رکھ سکتا ہے اور اس میں مزید ہونے والے والی کیمیائی
تبدیلیوں کو روکتا ہے۔ اسکے علاوہ ایک اور تیکنیکی وجہ یہ بھی ہے کہ الکحل چونکہ
بہت جلد تحلیل ہونے والا مادہ ہے جو اسکی ڈانیامائیزیشن کا مظہر ہے، ہومیوپیتھی
میں ادویات کی تیاری میں استعمال کیا جانے
والا ڈائنا مائیزیشن کا عمل اسی الکحل کے مرہون منت ہے۔
ایک عام سوال جو کیا جاتا ہے کہ ہمارے مذہب میں چونکہ
شراب نوشی کو سختی سے منع کیا گیا ہے،
لہذا الکحل کا استعمال کس حد تک جائز ہے۔
تو اس بابت یہ ہے کہ شراب نوشی منع ہے اور الکحل بذات خود
شراب نہیں بلکہ شراب کا ایک جز ہے گو کہ
بہت اہم اور ایکٹو۔
تو اس بارے چند
وضاحتیں کرنا ضروری سمجھی جائیں گی
1۔ شراب نوشی منع
ہے الکحل نہیں۔ الکحل جوکہ ایک جز و ہے یہ ممانعت کے زمرہ میں
نہیں آئے گی، جبکہ اسکا استعمال بھی نشہ
کے مقصدکےلئے نہ ہو۔
2۔ دوا کے طور پر الکحل کا استعمال اتنی قلیل مقدار میں
ہوتا کہ اس سے نشہ ہونے کا خدشہ نہیں ، چند قطرے
دن میں چند بار۔
3 ۔ مذید بچاؤ کےلئے اگر الکحل زدہ دوا کے دو قطرے شوگر آف
ملک یا چینی پر ڈال کر اسکے خشک ہونے پر
استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ اب اس دوا میں الکحل موجود نہی ہے ۔
4- اکثر علماء کا خیال ہے کہ الکحل شراب کے زمرے میں نہیں
آتی اور اس اسکا استعمال بطور دوا جائز ہے۔
جیسا کہ اسکےعلاوہ بطور دوا ہم لوگ مردہ جانور وں کے حصے ، حشرات
الارض، انسانی انزائمز اور زہر بھی
استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ ساری اشیاء کلی طور پر عمومی استعمال کےلئے ممنوعہ میں شمار ہوتی
ہیں۔ اسی ضمن میں ایک اور مثال یہ ہے کہ کھانسی کے
شربت میں الکحل کی اچھی خاصی مقدار شامل ہوتی ہے اور اسکے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ
اسکو استعمال کرنے کے بعد ڈرائیونگ یا مشینیں چلانے سے پرہیز کریں، اس کےعلاوہ
ڈوپنگ کے تحت ممنوعہ ادویات بھی نشہ آور
اشیا ء کے زمرہ میں آتی ہیں۔
میرے علم میں جو تھا ، بیان کیا باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے
اور وہی علم والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
اگر اس سلسلہ میں مزید کوئی وضاحت درکار ہو تو ضرور لکھئے انشاءاللہ پہلی
فرصت میں جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
جناب کچھ دن قبل سوکھے ٹماٹر لے آیا تھا اس میں لکھا تھا باقی تو سورج مکھی کا تیل ہے پر پانچ فیصد سرکہ اور پانچ فیصد وائن ہے۔ اس بارے میں کیا خیال ہے۔
جواب دیںحذف کریںاول تو یہ کہ میں الکحل و شراب کے ماہر نہیں ہوں اور اتنا ہی جانتا ہوں جتنا معالجات میں استعمال ہوتا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ جتنے بھی خمیر ہوتے ہیں ان میں الکحل موجود ہوتی ہے جسکی وجہ خمیر کے عمل کے نتیجے میں الکحل کا پیدا ہونا ہے۔
جواب دیںحذف کریںپھر دھراؤں گا منع شراب و نشہ آور اشیاء کا نشہ کے مقصد کےلئے استعمال ہے
:)یعنی کہ ہم نے دھو کر کھا لیے تو اللہ رحم کرنے والا ہے۔
جواب دیںحذف کریںنہیں میرے خیال سے تو خشک چیز میں وائن نہیں ہوسکتی، ویسے اگر ہو بھی تو اس کو مزید خشک کرلو ویسے ہی اڑ جائے گئی،
جواب دیںحذف کریںاور اگر کھانے میں کچھ مقدار شامل ہو جس طرح ادویات میں ہوتی ہے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے
بہترین معلوماتی مضمون ہے، مجھ کو زیادہ علم تو نہیں بس اتنا جانتا ہوں کہ شریعت کی رُو سے حالتِ مجبوری میں حرام خوری بھی جائز ہوجاتی ہے۔ شراب/الکحل ملی ادویات کا بھی یہی حکم ہے۔
جواب دیںحذف کریں