ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ, اکتوبر 19, 2011

لائیکنا اور حاجی ساب

 ہمارے ہمسائے میں اللہ مغفرت کرے چچاحسین عرف عام میں حاجی ساب رہتے تھے اب عازم جنت ہوچکےہیں شام کو جتنی مشٹنڈا پارٹی ہوتی انکے زیر سایہ تاش کھیل رہی ہوتی، تاش کم اور مخولیات زیادہ ہوتیں، ادھر آنکھ جپکی نہیں ادھر پتااڑا نہین۔ ہارون الرشید تب کا روونا اس کام میں سب سے ماہر تھا میرا ساتھی ہوتا اورجب بھی بانٹنے کی باری ہماری ہوتی مطلت ہار تو فوراُ اسکا کام تھا سارے کارڈ لپیٹ کر اپنے ہاتھ کرلینا کہ لوجی میں پھینٹی لگا دون بس فیر کیا ہوتا، تقسیم ہوتی پوری پوری اور شاہ جی کہہ دیتے رونیا توں نے ضرور چول ماری ہے، سارے کہہ اٹھتے شاہ جی اس نے کیا کیا ہے کارڈ تو ساروں کے پورے ہیں۔ شاہ جی  کا کہنا ہوتا کہ پتا مجھے وی نہیں کہ اس نے کیا کیا ہے پر کچھ نہ کچھ کچھ چکر کیا ضرور ہے اٹھ تلاشی دے اور پھر  یکے شاہ بیگی کے درجے کے دو کارڈ اسے کے کھیسے میں سے جانے کیسے نکل آتے۔۔

حاجی ساب اس سارے قضئے سے بے خبر ادھر منڈوں کو اپنے دن کی روداد سنارہے ہوتے کہ سویرے ادھر کالج گیا اپنی ایبسینٹی لگوائی اور فیر فور۔ اوتھوں مہانے کے ہوٹل پر چاہ پی فیر ماشٹر مقبول کے پاس گیا اور ادھر سیل ککڑ کو مالش کی فیر ککڑ وہاں  پر لڑوا کر زرا اسکا پنڈا تپا کر وہاں سے گھر اور مال مویشیوں کے چارے پانی کا بندوبست،  دیکھا فیر جب تم لوگ کالج سے پڑھ کرآئے تومیں اپنے کام مکا کر بیٹھا تھا کہ منڈے آتے ہیں تو زرا کابینہ کی بیٹھک ہو۔۔

یہ لائیکنے کی بیماری فیس بک پر کافی زور پکڑ چکی ہے اور اس سے مجھے وہ اپنے حاجی ساب کی ایبسینٹی یاد آجاتی ہے ۔اکثراحباب ایسے ہی ہیں جو کسی پوسٹ کو دیکھ کر لائیک کا بٹن دبادیتے ہیں کہ اللہ اللہ خیرصلہ، مطلب حاضری لگوا اور جان چھڑاؤ سعد میاں وی کچھ ایسے ہی کرتے ہیں جب بھی پوسٹ لکھی دیکھی ادھر کچھ اپنا خیال ظاہر کرنے کی بجائے لائیکا اور فیر سانوں کی۔۔بھئی اگر آپ کو اتنا پسند ہی آگئی ہے یہ پوسٹ تو فیر اپنے خیال کا اظہار کردو، کچھ لکھ دو کون سے آپ کے قلم کی سیاہی سوکھ جاوے گی۔ پر نہیں کون اتنا وخت کرے؟؟؟؟  

4 تبصرے:

  1. راجہ جی سعد کی فوٹو دیکھ کر بھی آپ شکوہ کر رہے ہیں؟
    اب سعد نے جواب شکوہ کر دیا تو سنبھالے گا کون؟
    دوسرا پنگا بلاگ سپاٹ پہ کمنٹ کرنا وڈا وختا ہوتا ہے جی۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ سعد سے شکوہ نہیں ہو رہا بلکہ وہ اس بارے پوچھ رہے تھے۔ کہ صرف لائیکنے سے کتنی نیکیاں ملتی ہیں؟ تو مجھے اپنے حاجی ساب یاد آگئے کہ جی کرلو گل

    جواب دیںحذف کریں
  3. جهاں تک میرا تعلق هے
    میں سمجھتا هوں که فیس بک پر لکھنا تحاریر کا ضیاع ہے
    بلاگ پر لکھنے کے مقابلے میں
    کیوں که اپ دیکھ هی سکتے هیں که بلاگ پر لکھے تبصرے اور تحاریر قاری کئی سال بعد بھی پڑھ سکتے هیں
    لیکن فیس بک پر لکھی تحاریر اگر پڑھی بھی جاسکتی هوں تو اس کی تلاش کا طریقه کار مجھے تو معلوم نهیں
    میں نے تو فیس بک پر اجاگر هونے والی اپنی پہلی پوسٹ پر لکھ بھی دیا تھا که تبصره اگر کرنا هے تو
    بلاگ پر کریں ناں که فیس بک پر
    جهاں تک یاسر صاحب کی بات ہے که بلاگر پر تبصره مشکل ہے تو
    میں پوچھنا چاهوں گا که
    اس سے بھی مشکل که
    چند سال پہلے تک لوگ لکھاری کو خط لکھ کر جواب کا انتظار کیا کرتے تھے
    فیس بک ایسے هی هے که
    دارے میں بیٹھ کر شغلیا باتیں
    اور بلاگ
    هوتا هے
    صائب الرائے لوگوں کی آراء !!ـ

    جواب دیںحذف کریں
  4. پہلے تو میں خاور بھائی کے تبصرے سے اتفاق کرتا ہوں۔ باقی افتخار راجہ بھائی کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ تحریر تو پسند آتی ہے لیکن رائے/تبصرے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا اس لئے لائیک کرنے پر ہی گزارا کر لیا جاتا ہے۔ باقی تو سعد صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ لائیک کرنے سے کتنی نیکیاں ملتی ہے :-)

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں