“جن نکالنا“ کوئی آسان کام ہوتا تو ہر بندہ “جن نکالتا پھرتا“۔ یہ تو جن سے پوچھے یا پھر جس کا “جن نکلتا“ ہے اس سے۔ کیوں جن کا ایک ٹھکانہ گیا اور جس کا جن نکلتا ہے اسکو دوہری ضرب لگتی ہے اول ناک میں مرچوں کی دھونیوں کی اذیت اور دوئم ہماری فیس۔ آج کل دھندے میںمندا چل رہا ہے کیوں کہ آمدن کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی جن نکلوانے میں دلچسپیاں کم ہورہی ہیں، شاید اسکی وجہ اسکولوں اور تعلیم کا عام ہونا ہی ہو، میں تو کہتا ہوں کہ اس اسکولوں کو “طبیلہ“ بنا دینا چاہئے بلکہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ ان کو تالا ہی لگا دیا جائے کہ ان میں جنات ڈیرے ڈال سکیں اور ہمارے “ دھندہ کا مندا“ ختم ہو۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کسی زیادہ آمدنی والے ملک چلا جاؤں۔ یورپ وغیرہ اور ادہر گوروں کے جن نکالوں۔ ویسے گوریوں کے جنات کا نکالنا کچھ اور ہی لطف ہوگا۔ (ہمارے دوست شاہ جی کی ڈائیری کا ایک ورق مؤرخہ 30 جون انیس سو ننانوے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
پیر, فروری 13, 2006
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
mara Gaun main larkio ka school ke amarat Jino ka maskan ka lia mashoor the
جواب دیںحذف کریںآپ مدد کرے گے شاہ صاحب کي يورپ جانے (آنے) ميں آخر کو انہوں نے آپ کو اپني ڈائري کيوں دي اس لئے ہي نا!! کہ آپ ان کے ارادوں سے واقف ہو کر ان کي مدد کرے؟؟؟؟
جواب دیںحذف کریں