ڈنمارک کے اخبار کے کارٹون کے حوالہ سے یہ سوال ابھر کر سامنے آیا ہے کہ کیا کسی کی دل آزاری اور وہ بھی دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی کی ، آزادی صحافت میں شامل ہے ؟
آج جبکہ نہ صرف ساري مسلم دنيا سراپا احتجاج ہے بلکہ اعتدال و حقيقت پسند غير مسلم بھي اس فعل کي پرزور مذمت کررہے ہيں۔ جبکہ دوسري طرف متعلقہ ممالک کي مصنوعات کا بائيکاٹ، احتجاجي جلسے جلوس، سفارتي تعلقات کا انقاط اور اموات تک واقع ہوچکي ہيں۔ اس کے باوجود ايک طبقہ ايسا بھي ہے جو ٰٰٰنام نہاد آزادئي صحافت کے نام پرٰ اس شرمناک حرکت کو نہ صرف درست قرار دے رہا ہے بلکہ مسلسل اسکا ارتکاب کيا جارہا ہے۔
آپ اس اس اہم موضوع پر اپنی راۓ کا اظہار فرمائیں۔
نيچے دئيے جانے والے ربط کا تعلق ايک آن لائين پٹيشن سے ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس پر کلک کرکے اپني پٹيشن ضرور درج کروائيں
اور دوست بلاگرز سے التماس ہے کہ اس ربط کو اپنے بلاگ پر ضرور جاري کريں۔ کہ برے کو برا کہنا تو بہرطور لازم ہے۔
آپ کي بات درست ہے ۔ ہمارے خيال ميں ہر آزادي کي کچھ حدود ہوتي ہيں۔ مثلا آپ آزاد ہيں جو چاہے پہنيں يا پھر ننگے پھريں مگر کوئي آپ کو ننگا پھرنے نہيں دے گا۔ آپ آزاد ہيں جو چاہے بکواس کريں مگر آپ عدالت ميں بکواس نہيں کرسکتے، آپ عيسائيوں کے پيغمبر کے خلاف نہيں بول سکتے، آپ ہولوکاسٹ کے خلاف نہيں بول سکتے۔ آپ آزاد ہيں جو چاہے چھاپيں مگر آپ موجودہ حکمران کي بےہودہ تصوير نہيں چھاپ سکتے، آپ برہنہ تصوير نہيں چھاپ سکتے۔ اس کا يہي مطلب ہے کہ آپ آزاد ہيں مگر شرائط کے ساتھ ۔ اس سے يہي ثابت ہوتا ہے کہ جو آپ کے مفاد ميں ہے وہ آزادي ہے اور جو آپ کے مفاد ميں نہيں ہے وہ غداري اور دہشت گردي ہے۔
جواب دیںحذف کریں