پرسوں میں اور خرم نزدیکی “بیرگاموں“ ائیر پورٹ پر کامران صاحب کو لینے گئے کہ بارسلونا سے برائے ملاقات تشریف لائے ہیں۔ برفباری کی وجہ سے فلائیٹ دیر سے آئی، اور ہمیںکوئی دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا، پس کافی پی، سیگریٹ پھونک کے ایک بینچ پر جا براجمان ہوئے۔ اردگرد کے سارے بینچ ہر ملک وقوم کےلوگوں سے بھرےہوئے تھے کہ بہت سی فلائیٹس لیٹ تھیں۔
دو پولیس والے ہمارے سامنے سےگزرے، اور میں نے خرم سے کہا کہ آئی سختی، کیوں کہ ابھی اس پولیس والے نے لمبی آنکھ کرکے دیکھا ہے۔ اور دو منٹ بعد وہ آن ہمارے سر پر کھڑےتھے۔ بون جورنو۔ کہاں کے ہو؟ پاکستانی؟ کاغذ دکھاؤ۔ کتنے عرصہ سے یہاں ہو؟ کیا کام کرتےہو؟ کونسی فلائیٹ کا انتظار ہے؟ آرہے ہو یا جارہے ہو؟ پھر ہمارے کاغذات لئے اور ایک ہمارے سر پر ہی کھڑا رہا کہ مبادہ کہیں بھاگ نہ جائیں۔ دوسرا کاغذات لے ہمارے نام وغیرہ وائرلیس پر چیک کرواتا رہا اور کوئی پندرہ منٹ کے بعد ہمیں واپس دے کر سب اچھا ہے کی رپورٹ دےکر چلتا بنا، میں نے اس سے پوچھا کہ ہمیں ہی بلخصوص کی چیک کیا گیا ہے۔ کیا شک ہوا تھا تم کو۔ تو جواب ملا کہ “ روٹین چیکنگ ہے“۔
خرم کہہ رہا تھا سر جی کوئی بات نہیں اب تو ہمارے لئے یہ واقعی روٹین چیکنگ ہوگئی ہے، چاہے عوامی بندے ہوں یا وزراء۔
چلیں اب آپ اس روٹین کے عادی ہوجائیں..... سمجھے ناں
جواب دیںحذف کریںکتنی شرمناک بات ہے اور ادھر ہم امریکہ کے الائ بنے ہوئے ہیں۔ ویسے ہماری حکومت بھی نا مطمئن بے غیرت ہے اپنے حقوق کا کوئی خیال نہیں رکھتی۔
جواب دیںحذف کریںحارث یہ امریکہ بیچ میں کہاں سے آ گیا۔ افتخار تو اٹلی میں ہے۔
جواب دیںحذف کریںہم جب سکول میں پڑھتے تھے تو ہمارے ڈرِل ماسٹر صاحب کہا کرتے تھے "بچہ اپنا عزّت اپنا ہاتھ میں ہوتا ہے"
جواب دیںحذف کریں