ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر, دسمبر 10, 2018

منصف اعظم اور انصاف کا مقدمہ

عدلیہ کا کردار بہت کلیدی ہوتا ہے۔
یہ ایسا ادارے ہے جو عدل کی فراہمی کا ضامن  ہے۔ اور عدل کرنے والے عادل کہلاتے ہیں۔ جن کو منصف یا جج بھی کہا جاتا ہے۔ مختلف زبانوں میں۔  اگر ہم دیکھیں تو یہ ایسا محکمہ یا ادارہ ہے جس کے ساتھ زندگی کے ہرشعبے  کا تعلق  ہوتا ہے
تفصیل میں جانے سے پہلے ایک نظر انصاف پر ڈالی جاوے تو عین مناسب ہوگا۔
انصاف کی تعریف تو کوئی وکیل یا جج صاحب ہی بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔ لیکن میں بطور لے مین یہ کہہ سکتا ہوں کہ انصاف کا متضاد بے انصافی ہے۔   گویا بے انصافی کو ختم کرنے کےلے انصاف کی ضرورت ہے۔ جیسے اندھیرے کا متضاد روشنی ہے۔ اور روشنی سے ہی اندھیرے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
بے انصافی کیا ہے؟
یہ طے کرنا شاید نسبتاُ آسان ہے۔ جب کسی شخض یا گروہ کا حق مارا جائے تو اسے بے انصافی کہا جاوے گا۔ گویا حق کی بعینہ ادائیگی کو انصاف کہا جاسکتا ہے۔
حق کیا ہے ؟؟
یہ بھی طے کرنا آسان ہے کہ کسی فرد کی ملکیت یا اس کے واجبات کو بروقت اسکے حوالے کردینا ہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، جس کو تسلیم کیا جائے اور متعلقہ فرد یا افراد کے حوالے کر دیا جائے۔
اب حق میں بہت سی جیزیں آجاتی ہین۔ فرد کے اپنے جسم پر اسکا اپنا اختیار۔ اسکی شخصی ازادی سے لیکر اسکے کھانے پینے۔ رہنے سہنے۔ اسائیش و آرام، عزت و تعلیم یہ اسکا حق ہے۔ زندہ رہنا بھی اسکا حق۔ آج کے دور میں بجلی پانی تعلیم تربیت۔ صحت صفائی سب بنیادی حقوق میں آتے ہیں۔  آج کے زمانے میں ان سارے معاملات کو قانون کے ذریعے طے کردیا گیا ہے۔ گویا ایک ترتیب بن گئی ہے ، حق مقرر ہوگیں اور حدود باندھ دی گئی ہیں۔
جب کسی کی حق تلفی ہوتی ہے تو؟؟؟
ایسی صورت میں زوراور شخص تو اپنا حق چھین لے گا  اور تنازعہ پیدا ہوگا، اس سے فساد بھیلنے کا شدید اندیشہ بحرحال موجود ہے اور مہذب معاشروں میں اس سے باز رہا جاتا ہے۔  بصورت دیگر تنازعہ کی صورت میں عدلیہ سے رجوع کیا جاوے۔
جج صاحب اپنے علم، اپنی تربیت اور تجربہ کو استعمال  میں لاتے ہوئے  مروجہ قانون کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں کہ  انصاف کیا ہے اور مظلوم کون ہے  اور ظالم کون۔
بے انصافی کی روزمرہ مثالیں، جسمانی تشدد یا مارکٹائی۔ ذہنی تشدد ، گالی گلوچ،  دھمکیاں۔ چوری، ڈاکے، فراڈ۔ زمین، مکان کاروبار کا ہتھیا لینا۔ پیسے زیورات ، اغوا، حبس بے جا، وغیرہ۔
اسکے علاوہ لین دین میں ہونے والی بے ایمانیاں۔ کاروباری معاہدوں پر عمل درآمد نہ کرنا۔  اسی طرح سرکاری یا پرائیویٹ اداروں کا اپنی اعلان شدہ خدمات یا سروسز  کو فراہم کرنے سے معذرت کرنا یا معذور کا اظہار کرنا۔
روز مرہ سے کچھ مثالیں
جیسا کہ آپ سول ہسپتال جاتے ہیں اپنے علاج کی غرض سے تو اپکا حق ہے کہ آپ کا باقاعدہ چیک اپ ہو، اور آپ کا باقاعدہ علاج کیا جائے۔ دوران علاج آپ کو بستر، کھانا پینا، ادویات، صفائی سب آپ کا حق ہے۔ ڈاکٹرز نرسیں آپ کی دیکھ بھال کی تنخواہ لیتے ہیں۔
اسی طرح پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس جانے کی صورت میں۔ آپ کو فیس دینا ہوگی  اور ڈاکٹر آپ کا علاج کرے پوری توجہ سے۔ یہ آپ کا حق ہے۔
اگر آپ فیس نہیں دیتے  اور علاج کروالیتے ہین، تو آپ نے حق تلفی کی، اور اگر ڈاکٹر نے فیس لی اور پھر آپ کا  علاج نہیں کررہا ہے توجہ سے تو اس نے آپ کی حق تلفی کی ہے۔


ایسی صورت میں آپ عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور اپنے لئے انصاف کے طالب ہوتے ہیں۔ اب جج صاحب کا فرض ہے کہ وہ آپ کو فوری انصاف فراہم کریں۔  فوری فیصلہ کریں کہ ڈاکٹر صاحب آپ کا علاج کریں۔
اپنے قاری صاحب مرحوم کا قول دانا ہے کہ
کھروں کی  ریاست چل سکتے ہیں مگر ظالموں کی نہیں۔
پاکستان میں انصاف کی فراہمی کا ذمہ سپریم کورٹ کے سر ہے۔ اور اسکے جج صاحبان انصاف کے علمبردار ہیں۔
باوا ریمتے گویا پاکستان میں انصاف کے دیوتا قرار پائے۔
تو میرے  صاحبو ، اچھی خبر یہ ہے کہ   پاکستان کی سپریم کورٹ میں اس وقت   38913 کیسز پینڈنگ ہیں۔ یعنی تقریبا چالیس  ہزار افراد کو انصاف دستیاب نہیں ہے۔  یہ تعداد 2016 میں 32744 تھی۔ ان کیسز میں گزشتہ پانچ سات برسوں میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اب عالم یہ ہے کہ  ھائی کورٹس اور مقامی عدالتوں میں یہ تعداد لاکھوں میں جائے گی۔ جو کہ ایک انسانی المیہ کو جنم دیتی ہے۔
کوئی کسی کو قتل کردے، گھر چھین لے، زمین قابو کرلے۔ کاربار تباہ کردے۔ مال چھین لے۔ رشوت لے، سفارش کروائے۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔
عدالت عظمیٰ کے منصف اعظم صاحب  ڈیم کےلئے فنڈ اکٹھے کررہے ہیں، بچے بند کرنے کی کانفرنس چلا رہے ہیں، میلاد منا رہے ہیں، ہسپتال کی لفٹ ٹھیک کروا رہے ہیں۔  جلسوں میں تقریریں کررہے ہیں۔ اور ریلیوں کی قیادت کررہےہیں۔
لیکن انصاف نہیں کررہے۔ نہ ہی اس نظام کو درست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ منصف اعظم سے درخواست ہے کہ  اگر آپ کے پاس انصاف کےلئے وقت نہیں ہے تو یہ کرسی چھوڑ دیں یہ کام کرنے کی ڈیوٹی کسی اور کی لگا دیں۔

ورنہ اگر کوئی شخص ذمہ داری سے اپنا کام کرے تو اسکے پاس تو سر کھجانے کا وقت نہیں ہے۔ منصف اعظم اور انصاف دونوں عنقا ہیں۔ اگر کسی کو ملیں تو بتائیں۔ 

اگر عدالتوں کے منصف  بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنا لیں تو یقین رکھیں کہ عام آدمی ہی چوروں ڈاکوں اور رشوت خوروں کو عدالت میں لا کھڑا کرے گا۔ 

دل جلی تحریر راجہ افتخار خان



1 تبصرہ:

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں