ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ, مئی 19, 2018

میٹابولک سینڈروم اور رمضان المبارک

میٹابولک سینڈروم  اور رمضان المبارک
Metabolic syndrome
تحریر  ڈاکٹر راجہ افتخار خان، ہومیوپیتھ ، کنسلٹنٹ ھیرنگ لیبارٹریز اٹلی۔
رمضان المبارک میں چونکہ سب سے اہم کام جو ہوتا ہے اور ہوتا دکھائی بھی دیتا ہے وہ ہے کھانے پینے اور خواہشات کو قابو میں کرنا۔
اسی مد میں میٹابولک سینڈروم کو بھی قابو کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ ہی ہمارا آج کا موضوع ہے۔
میٹابولک سینڈروم کیا ہے؟؟
یہ کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ جسم کے اندر ہونے والی میٹابولک تبدیلیوں  کو معمول سے ہٹا کر پیدا کردہ ترتیب دیتے ہوئے جسم کی خود کی پیدا کردہ صورتحال ہے جو تکلیف دہ اور بعد میں زندگی کےلئے بھی خطرہ بھی بن سکتی ہے۔
وضاحت کے طور پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ  اگر کسی شخص کا وزن اچانک بڑھ جائے ، بلخصوص پیٹ پر چربی کا جمع ہوجانا اور گردن موٹی ہوجانا، اور  بلڈپریشر ، شوگر ، کولیسٹرول،  کا درجہ معمول سے زیادہ ہوجائے تو وہ شخص میٹا بولک سینڈروم میں انتہائی درجہ پر  مبتلا ہے۔ اگر ان چاروں فیکٹرز میں سے تین بھی موجود ہوں تو اسکو میٹابولک سینڈروم ہی کہا جاوے گا۔ اگر دو ہوں مثلا، وزن کا بڑھ جانا اور شوگر ،  یا کولیسٹرول اور بلڈپریشر کا زیادہ ہونا تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ میٹابولک سینڈروم کے رستہ پر چل پڑا ہے۔ اگر صرف وزن زیادہ ہوگیا  ہو تو اسکو میٹابولک سینڈروم کے راستہ کی طرف جانا کہا جائے گا۔ یعنی یہ بھی الارمنگ ہے۔ بلخصوص اس صورت میں  کہ اگر والدین یا موروثیت میں کسی کو اس  صورت حال کا سامنا رہا ہو تو۔
چونکہ یہ بیماری نہیں ہے بلکہ جسم کی خود سے ہی پیدا کردہ صورت حال ہے تو اسکو دوا دے کر ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی طریقہ علاج میں اسکا شافی علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔اب یہ ایلوپیتھی ہو، ہومیوپیتھی، طب یونانی ، اسپاجیریرک میڈیسن یا پھر اکوپنکچر یا سرجری۔ کسی طور پر اسکا فوری اور مکمل علاج ممکن نہیں۔

میٹابولک سینڈروم کیوں ہوتا ہے؟؟
اسکی وجوہات نامعلوم ہیں  جو وراثتی بھی ہوسکتی ہیں۔لیکن اسکےلئے ایک بڑا فیکٹر خوراک میں غیرضروری طور پر چینی کا اضافہ ہے۔
یہ چینی جسم میں فوری توانائی فراہم کرتی ہے۔ وہ افراد جو محنت مشقت کا کام کررہے ہوتے ہیں یا پروفیشنل کھلاڑی وہ تو اس کو استعمال کرلیتے ہیں،  اسکے کے برعکس دفتری کام کاج کرنے والے، یا سہل و آسان زندگی گزارنے والے افرادکےلئے یہ فالتو چینی اور فوری توانائی کسی کام کی نہیں ہوتی بلکہ اسکو ٹھکانے لگانا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔
ہماری خوراک میں ھائی گلیسیمک انڈیکس  (high glycemic index food)کا اچانک اور بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں، چینی، سافٹ ڈرنکس، انرجی ڈرینکس، بیکر ی اور مٹھائیاں، روٹی چاول ، پاستہ ، بریڈ اور گندم کے آٹے سے بنی ہوئی دیگر اشیاء،
سبزیوں میں آلو، مٹر، پھلوں میں، انگور، تربوز، کیلا، آم  وغیرہ ہیں۔  یہ وہ خوراکیں ہیں جنکے کھانے کے پندرہ سے تیس منٹ کے بعد آپ کے خون میں گلوکوز کی مقدار سے بڑھ جاتی ہے۔
اسکے علاوہ خوراک کی مقدار کا بہت زیادہ ہونا اور بار بار کھانا  بھی اس عمل میں معاون ثابت ہوتاہے۔
ہوتا یوں ہے کہ جب جسم کے اندر گلوکوز کی بڑی مقدار پہنچتی ہے اور فوری طور پر توانائی دستیاب ہونے کی وجہ سے ہم چست و چالاک ہوجاتے ہیں۔ اب اس چستی کو فوری طور استعمال کرلیا جائے، جسمانی مشقت یا فیزیکل ایکٹیویٹیز کے ذریعے تو ٹھیک ہوگیا، ورنہ اس گلوکوز کو فوری طور پر  ٹھکانے لگانے کےلئے جسم انسولین کو پیدا کرتا ہے جس اس شوگر چربی کی صورت دیتا ہے، پھر کولیسٹرول کو خارج کیا جاتا ہے تا کہ اس گھومتی ہوئی چربی (فیٹ) کو کسی مناسب جگہ تک پہنچا کر ٹھکانے  لگائے (ڈیپازٹ کرنا)۔
گویا
اس ایک چینی یا گلوکوز کی زیادتی کی وجہ سے انسولین، چربی اور کولیسٹرول بیک وقت جسم میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اس سے خون کا  حجم بڑھ جاتا ہے اور بلند فشار خون( ہائی بلڈپریشر ) کا باعث بنتا ہے۔
ممکنہ خطرات
میٹابولک سینڈرم کی موجودگی   صحت کےلے ذیل کے خطرات کا باعث بن  سکتی ہے، ہارٹ اٹیکس(myocardial infraction)،    ذیابیطس ٹائپ 2، انسولین کے خلاف قوت مدافعت کا پیدا ہوجانا، شاک (cerobrovescolar disease)۔  جلد موت کا واقع ہوجانا۔

مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے، تو اسکا حل بھی سمجھ آگیا ہوگا؟
جی بلکل، چینی اور ھائی گلیسیمک انڈیکس والی خوراک کا بہت ہی کم استعمال۔
اگر آپ کو شوگر نہیں ہے
تو
کھانے میں سے، چینی۔ چائے کافی میں، شربت میں۔ جوسز، سافٹ ڈرنکس کولے وغیرہ  کو منع کریں
بیکری کا سامان اور مٹھائیاں منع کریں
روٹی، بریڈ، چاول  یا گندم کی دیگر اشیاء  سے دور رہیں۔
پھلوں میں سےتربوز،  کیلا، آم اور انگور سے پرہیز کریں
سبزیوں میں، آلو اور مٹر سے دور رہا جاوے۔
تیل اور بناسپتی گھی کی مقدار بہت ہی کم کردیں۔
اپنے کھانے کی مقدار کم کردیں۔
اب آپ کے دماغ میں آرہا ہوگا کہ کھایا کیا جاوے۔ تو جناب  باقی کا سب کچھ ہے۔
  آپ کے پاس گوشت، مچھلی مرغی، انڈے پنیر، دہی دودھ سب ہے۔ اسکے علاوہ  پھلوں میں خربوزہ۔ انار، انجیر، چیری، اسٹرابری، خشک میوے، آڑو، سیب خوب کھائیں۔
دالیں کھائیں، سبزیاں کھائیں۔ سبز پتے والی اور زمین پر اگنے والی سبزیاں اور زیرزمین اگنے والی سبزیاں۔
رمضان الکریم برکتوں کا مہینہ ہے اس میں  ویسے ہی رک جانے کا حکم ہے تو آپ اوپر دی گئی چیزوں سے رک کر اپنی خراب ہوتی ہوئی صحت بحال کرسکتے ہیں۔

سحری کا پروگرام
ایک پیالہ  دلیہ، کارن فلیکس  نٹس  اور دودھ۔   چائے کی پیالی، پانی کے دو گلاس
یا پھر فروٹ ، چائے پانی کے دو گلاس
یا پھرآملیٹ، چائے، پانی کے دوگلاس
یا کچھ اور جو آپ کو پسند ہو دہی وغیرہ
افطار  کا پروگرام
دوعدد کھجوریں، اس سے زیادہ نہیں۔ پانی کا گلاس اور مغرب کی نماز
اسکے بعد، چار پکوڑے یا دو سموسے یا ایک پلیٹ چنا چاٹ، یا پھر گوشت یا دال  یا سبزیوں کا سوپ ، کھانا ایک نشت میں نہ کھائیں
اور جب بھوک ختم ہوجائے تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیں۔  اپنے کھانے بدلی کرتے رہیں۔ مصالہ جات نہ چھوڑیں، چسکا برقرار رہنا چاہئے۔
اس ضمن  میں مدد کےلئے اپنے ہومیوپیتھ سے آپ ایناکارڈیم، فیوکس، اینٹی مونیم کروڈ، نامی ادویات  ڈسکس کرسکتے ہیں۔
یاد رہے سینڈروم کو قابو کیا جاتا ہے اسکو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان حالات کو ختم کرنا ہوتا ہے جو اس سینڈروم کا باعث بنتے ہیں۔ خوراک  کا کم استعمال، خوراک کا محتاط استعمال، جسمانی وزش۔  اگر ضروری ہوتو کچھ ادویات بھی معالج کے مشورے سے استعمال کرسکتے ہیں۔

اگر آپ کسی بات کی وضاحت درکار ہے تو کمنٹ میں لکھ دیجئے، جواب دینے کی بھرپور کوشش کی جائے گی





4 تبصرے:

  1. اس عمدہ تحریر کے لیے بہت شکریہ۔
    پہلا سوال تو ذہن میں یہی ہے کہ آپ نے رمضان کے حوالے سے تو سحری و افطار کی راہنمائی کردی، لیکن عام دنوں میں کیا کھایا جائے؟ یعنی ڈائٹ کو تین کھانوں پر تقسیم کس طرح کیا جائے؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. پسندیدگی کا شکریہ،
    آپ کا سوال بہت مناسب ہے مین نے رمضان المبارک کی نسبت سے اسکا ذکر نہ کیا تھا۔ ترکیب یوں ہے بعد از رمضان کہ اگر ممکن ہوتو، دوپہر کو پھلوں کو موقع دیا جائے، یعنی صبح کا ناشتہ دوپہر کو کچھ پھل اور شام کا کھانا۔ ترکیب یہ ہو کہ اس دوران کچھ نہ کھایا پیا جائے، یعنی چائے کافی کے وقفوں سے پرھیز کیا جائے اور صرف پانی سے کام چلایا جائے۔ خوراک کی مقدار کو کم کرنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس لئے، لوگوں کو انکار کرنا سیکھنا ہوگا۔ پیٹ بھر کر کھانے کی بجائے بھوک مٹانے کےلئے کھایا جائے۔ وقت درکار ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت شکریہ بہت کچھ سمجھ آگیا

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ پرہیزیں اور غزائیں ہر عمر کیلیئے ھیں یا ہم جیسے جوانوں کی کوئی الگ خوراک بھی ھے

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں