ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ, جولائی 21, 2012

لڑکی غائب

ایک محترمہ نے بعذریہ فیس بک پوچھا کہ اگر مجھے اس بارے کچھ علم ہے، تو مگر میری لاعلمی پر  " ایل جورنو "  نامی اخبار کا لنک فراہم کردیا،
ساری  خبر کا ترجمہ میں ادھر کردیتا ہوں،  باقی آپ جانیں کہ کس نظر سے دیکھتےہیں۔

میری بیٹی غائب ہوگئی ہے، اسے تلاش کرنے میں میری مدد کی جائے۔
مونزہ ،  سولہ سالہ پاکستانی لڑکی غائب۔
باپ: " وہ تو اسکول میں پہنچی ہی نہیں"  اسکے پاس پیسے تھے نہ ڈاکومنٹس،  مگر ایک دکاندار نے اسے ایک لڑکے کی کمپنی میں دیکھا۔
اچانک ہی گم ہوگئی  نو جولائی سے،  اسکا نام ہے  عائشہ پروین،   پاکستانی، سولہ برس کی ہے،  لمبے سیاہ بال جو چہر ے کو فریم میں لاتے ہیں،  ایک میٹر ساٹھ کی قامت، متناسب جسم،  وزم چالیس کلو کے قریب،   سرکاری طور پر وہ صبح گھرسے اسکول جانے کو نکلی ، جہاں وہ  بنیادی زبان کی تعلیم لیتی ہے، اور یہ اسکول گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے،  مگر عائشہ اس اسکول میں شاید کبھی گئی ہی نہیں۔

اسکول میں اس صبح اسے کسی نے دیکھا ہی نہیں ،  نہ پروفیسروں نے اور نہ ہیں اسکے کلاس فیلوز نے،  اسکا باپ عجائب حسین عمر 53 برس قومیت پاکستانی ، جو اٹلی میں دس برس سے زیادہ کے عرصہ سے مقیم ہے اور باغبانی کا کام کرتاہے،  ہمت ہارچکا ہے۔ وہ ، اسکے اہل خانہ، دوست، ہم وطن سب ملکر اسی شام سے اسے تلاش کررہے ہیں۔  اسکا بڑا بیٹا بلال ، ذاتی طور پر پرچا کٹوانے گیا تھا دوسرے دن ہی کاریبینیری کے متعلقہ دفتر میں۔

باپ کے بقول: " ساڑے بارہ بجے تک جب وہ واپس گھر نہیں آئی تو ، میرا بیٹا اسے اسکول میں تلاش کرنے گیا مگر وہاں پر معلوم ہوا کہ وہ تو اسکول گئی ہی نہیں ،   ہم نے اسے ہر جگہ تلاش کرنا شروع کردیا، ہسپتالوں میں ، مما ریٹا کے گھر میں ۔۔۔۔۔۔۔،  تین برس قبل عجائب حسین نے اپنی فیملی کو مونزہ میں بلاکر اکٹھا کیا، جس میں اسکی بیوی کے علاوہ چھ بچے بھی ہیں، بیس برس سے بارہ برس کی عمر تک کے۔ مسلمان اور رسم ورواج کے پابند،  "مگر ہم ان بریشیا کے پاکستانیوں کی طرح نہیں ہیں"،  عجائب حسین ہاتھ اگے رکھ کر   بریشیا میں چند برس قبل والد کے ہاتھوں قتل ہونے والی لڑکی حنا سلیم کا حوالہ دے رہا تھا،  جس پر مغربی طرز حیات کو اپنانے کا الزام تھا۔

جبکہ ٹوٹی پھوٹی اٹالین میں ، گلہ بھر کر بیان کررہا تھا کہ جب سے عائشہ گم ہوئی ہے تب پوری فیملی پریشان ہے  " ہم نے تو کھانا تک نہیں کھایا"۔ عجائب حسین اس دوران متعدد بار پھٹ پڑ ا ، رونا ضبط کرلیا مگر  اسکے آنسو نہ نکلے۔ تصویر جو بنتی ہے وہ سب مگر واضع نہیں: لڑکی صرف اردو میں ہی بات کرسکتی تھی جو پاکستان کی قومی زبان ہے، اسے اٹالین کا ایک لفظ نہیں آتا تھا  جبکہ وہ دو برس سے  بیلانی نامی مڈل اسکول میں زیر تعلیم ہے ، عین ممکن ہے کہ اسکول کے اساتذہ نے ہی اسے بنیادی اٹالین کے اسکول میں میں پڑھنے کا مشورہ دیا ہو۔


باپ کے بیان کے مطابق اسکے دوست نہ تھے اور لڑکے تو بلکل بھی نہیں،  (مگر اس صبح ایک دکاندار نے اس لڑکی کو ایک غیر ملکی لڑکے کے ساتھ دیکھا ہے)، صرف ٹی وی دیکھ لیتی تھی، ( وہ بھی انڈین فلمیں )،  وہ انٹرنیٹ کا استعمال نہیں جانتی تھی اپنے بھائیوں کے برعکس،  "بس اپنے کمرے میں گھنٹوں چپ چاپ  پڑی رہتی،نہ تو احتجاج کرتی تھی ، نہ ہی  کوئی مطالبہ نہیں کرتی تھی، نہ  ہی پیسے مانگتی تھی،  کچھ بھی تو نہیں کہتی تھی"۔ گم ہونے کی صبح اس نے گلابی رنگ کی چھوٹے بازوؤں والی قمیض  پہنی،  براؤن رنگ کی  پنتلون اور جوتے، اور دوپٹہ سر ڈھانپنے کو۔  تفتیش کاروں  کا جبکہ خیال ہے کہ عائشہ خود ایک طرف ہوگئی ہے، اور یہ کہ اسے ممکنہ طور پر کسی  کی پناہ حاصل ہے،  شاید کسی ہم وطن کی۔

"یہ  میرے بچوں میں سے چوتھے نمبر پرہے"۔ عجائب حسین بیان کررہا تھا۔ میں تو بس اسکےلئے ایک دن ایک اچھا شوہر تلاش کرنا چاہ رہا تھا، اٹلی میں ایک لڑکی کےکرنے کے کام نہیں ہیں۔   ایک شوہر شاید باپ کا منتخب کردہ،  جو گرمیوں کے بعد بڑی بیٹی کی شادی کرنے کا اہتمام کررہا تھا " ایک ہم وطن دوست کے بیٹے کے ساتھ۔۔ ۔ "  مزید کچھ کہنا اس نے مناسب نہ سمجھا:میری بیٹی اس لڑکے کا فوٹو دیکھ پائی تھی اور انٹرنیٹ پر اس سے رابطہ بھی کیا تھا،  "اگر وہ اسے پسند نہ آتا یا وہ اس سے شادی نہ کرنا چاہتی تو اسکےلئے ایک اور تلاش کرلیتا۔۔۔۔۔۔۔۔"۔

9 تبصرے:

  1. دعا ہے وہ خیر خریت سے ہو اور واپس صحیح سلامت اپنے والدین کے پاس پہنچ جائے۔
    باقی آج کل حالات ایسے ہیں کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا آج کل کے بچوں کے بارے میں ۔
    والدین تو ہمیشہ اپنے بچوں کی خوشی کے لیے ہی سوچتے ہیں اور تمام تکلیفیں اٹھاتے ہیں لیکن بچوں کو اس بات کا احساس بلکل بھی نہیں ہوتا ۔ اور جب احساس ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ باقی سمجھ نہیں آرہی کہ کیا لکھوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اللہ کرے کچھ ایسا ہی ہو، مگر میرا خیال ہے کہ واقعہ کچھ اور ہے اور باپ اصلیت کو چھپا رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لڑکی جو دو برس سے ادھر اسکول میں پڑھتی ہو تو ایک لفظ اٹالین کا نہ جانتی ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. رضوان خان7/22/2012 02:28:00 AM

    میری تمام تر ہمدردیاں پریشان حال فیملی کے ساتھ ہیں۔میں ان کا درد محسوس کر سکتا ہوں۔ ۔ہماری دعا ہے کہ ان کی بچی جلد از جلد مل جائے اور وہ خیریت سے ہو۔
    میں آپ کی رائے سے متفق ہوں، دو سال سے لینگویج اسکول اٹینڈ کرنے والی لڑکی کو کیسے ایک لفظ اٹالین نہیں آتی کیا وہ ابنارمل ہے ؟ باپ نے اپنی پسند سے بیٹی کا رشتہ طے کرلیا تھااور گرمیوں کے بعد اس کی شادی کرنے والا تھا، شاید لڑکی کی اس میں مرضی شامل نہیں تھی یہی وجہ ہوسکتی ہے۔باپ کا اپنا بیان کہ"بس اپنے کمرے میں گھنٹوں چپ چاپ پڑی رہتی،نہ تو احتجاج کرتی تھی ، نہ ہی کوئی مطالبہ نہیں کرتی تھی، نہ ہی پیسے مانگتی تھی، کچھ بھی تو نہیں کہتی تھی" بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
    ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس دکھی فیملی کی مشکل آسان کرے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. ایسا لگتا ہے لڑکی پاکستان واپس جانے کی خواہاں ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. اللہ ہر کِسی کے اپنے حفظ و امان میں رکھے والدین کے لئے تو یہ بہت ہی مُشکل مرحلہ ہے اللہ سے دعا ہے کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے

    جواب دیںحذف کریں
  6. کوئی نہ کوئی لوچا تو ھے جی
    بندے کے آپسی بیانات ہی نی ملتے
    پہلے کہتا ھے انترنیٹ کا نہیں پتہ
    اور لڑکے سے انٹرنیٹ پہ رابطہ بھی کرا تھا
    بات کچھ سمجھ نی آری
    لیکن واقعہ افسوسناک اور دکھی ھے

    جواب دیںحذف کریں
  7. وہ تو جو ہوا سو ہوا، مگر یہاں پر اس طرح کے مسائل پوری کمونٹی کےلئے باعث شرمندگی بن جاتے ہیں، کسی بھی طرح کا فعل پوری کمیونٹی کےلئے لعنت کا باعث بنتا ہے، کہ پاکستانی یہ کرتے ہیں پاکستانی وہ کرتے ہیں،

    جواب دیںحذف کریں
  8. السلام علیکم
    بہت افسوسناک واقعہ ہے- اللہ ہم سب مسلمانوں پر اپنا رحم کرے اور ہمیں خود بھی اسلام پر چلنے کی توفیق دے اور اپنے بچوں کو بھی اسکی تعلیمات کے مطابق تربیت کی توفیق دے آمین-
    پودوں کی دیکھ بھال میں صرف غزا ہی نہیں ماحول اور آب و ہوا بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں-
    ام عروبہ

    جواب دیںحذف کریں
  9. اس خاندان کے لئے یہ وقت انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ہزاروں خیالات اور وسوسے والدین کو پریشان کررہے ہوں گے۔ مجھے ہمدردی ہے والدین سے۔

    اس واقعہ کے بارے میں تو اس وقت کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہم پاکستانی روزی روٹی کے لئے ملک چھوڑ دیتے ہیں لیکن جہاں ہم جاتے ہیں اس معاشرے کو اپنانے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوتے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے ایک بندہ اپنا اپنے آباؤاجداد کے طور طریقے اور روایات کو دیکھتے سنتے اور ان پر عمل کرتے ہوئے بڑھا ہوا ہو اسکے لئے نئے طورطریقے اور روایات اپنانا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن مسلئہ اس وقت پیچیدہ ہوجاتا ہے جب اپنے پچوں سے بھی اسی بات کی توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی جس معاشرے میں وہ جی رہے ہیں، تعلیم حاصل کررہے ہیں، زندگی کے طورطریقے سیکھ رہے ہیں اس معاشرے کو اپنانے سے انکار کردے۔ یہ تو سراسر زیادتی ہے اور انتہا درجے کی بیوقوفی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں