جب پوری طرح ہوش و حواس سنبھالے اور جب سے یاداشت نے کام کرنا شروع کیا تھا پوری طرح تو ہم پہلا روزہ رکھ چکے تھے، مطلب "چڑی روزہ" جو صبح آٹھ بجے ناشتہ کے وقت رکھا جاتا تھا اور دوپہر کو کھولا جاتا ، پھر شام تک افطاری کے دسترخوان تک "سفید ٹوپی" پہن کے روزہ داروں کے ساتھ روزہ کھولاجاتا۔ یا پھر پہلا اور آخری روزہ رکھ کر باقی کے روزے بیچ میں آجانے کا اعلان ، یہ بھی ہمیں نہ ملا۔
جب سے یاد ہے وہ یہ کہ روزے موسم " چیت بیساکھ " کے تھے، جس کو اردو میں موسم بہار کہا جاتا ہے۔ ایسے میں صبح کی خنکی میں سحری کےلئے جاگنا اپنی جگہ مزیدار بات تھی۔ میں چونکہ اپنی نوعیت کا سب سے چھوٹا بچہ تھا ، بڑے بھائی صاحب مجھے سے کوئی پندرہ برس بڑے تھے پس سب روزہ داروں کو دیکھ کر "بڑوں کے جوتے میں پاؤں" کب ڈلا ، کچھ یاد نہیں ہے۔
البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ ہمارے داداصاحب مرحوم جو بہت ہنس مکھ انسان تھے ہم انکو "اجی جی" کہتے ہیں۔ پہلے روزے کی سحری کو اٹھتے ہی نعرہ ماردیتے ہنستے ہوئے، " گئے روز ے سوہاوڑے ، باقی رہ گئے نو تے وی" ( گئے روزے پاک باقی رہ گئے نو اور بیس۔) اور سب ہنس دیتے۔ کہ "اجی جی" ابھی تو پہلے روزے کی سحری شروع ہوئی ہے ، جواب ملتا " بس پترو شروع ہوگئے تے مک گئے" ۔ یوں ہنستے کھیلتے سحری میں روزہ رکھا جاتا۔ تازہ روٹی کی دیسی گھی میں بنی ہوئی چوری اور گنے کی شکر۔ ساتھ میں تازہ دھی کا ادھ رڑکا۔ ادھر کہیں دور سے ہوٹر بجتا اور الحمدللہ۔ روزے داروں نے روزے رکھ لئے۔
روزہ کی افطاری کا وقت شروع ہوتا تو تیاری میں سب سے پہلے گھر میں گھومتا ہوا سب سے موٹا ککڑ پکڑا جاتا اسکا سالن بنتا اور میں تازہ جو کے ستو اور گڑ کا شربت ایک بڑی سی بالٹی میں بنتا، کھجوریں ، تندور کی روٹیاں اور پہلے روزے کی افطاری کی بھاگ دوڑ لگ جاتی۔ جا میرا پتر " اپنی دادی شاد "کو افطاری پھڑا آ، وہ تو تیرے ساتھ بہت پیار کرتی ہے۔ جابچہ بھاگ کرے دادی فرمان کو بھی پکڑآ ،وہ ماسی مختوماں بھی تو ہے، جابچہ، جابچہ۔
اور ایسے میں افطاری کا وقت ہوجاتا، اور اجی جی ختم شریف شروع کردیتے، کافی دیر تک قرآن کی تلاوت ہوتی پھر تفصیل سے دعا مانگی جاتی جس میں سب فوت شدگان کو نام بنام یاد کیا جاتا، ادھر دعا ختم ہوئی ادھر ہوٹر بجا اور ادھر روزہ کھلا اور ادھر سب بھاگے مسجد کی طرف۔
دوسرے دن آٹھ تے وی ، پھر ست تے وی، اور پھر جب پندرواں روزہ ہوجاتا تو پھر "اجی جی " گنتی چھوڑ دیتے۔ کہ اب روزے مہمان رہ گئے ہیں اور مہمانوں کے جانے کے دن نہیں گنا کرتے۔
اللہ ان سب مرحومین کی مغفرت کرے, زندوں کا روزہ قبول کرے اور نہ رک
ھنے والوں کو روزہ چکھنے کی توفیق عطافرمائے
نوٹَ
یہ تحریر لکھنے کی تحریک دینے کےلئے محترمہ کوثر بیگ صآحبہ کا بہت ہی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ جنکا حکم نازل ہوگیا، بھائی اپنے پہلے روزے بارے لکھ دو۔
نوٹَ
یہ تحریر لکھنے کی تحریک دینے کےلئے محترمہ کوثر بیگ صآحبہ کا بہت ہی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ جنکا حکم نازل ہوگیا، بھائی اپنے پہلے روزے بارے لکھ دو۔
کتنا روانی سے لکھا ہے اییسے لگ رہا ہے سامنے بیٹھے کسی کی خود کلامی سنی جارہی ہے ۔جو کا ستو اور کڑ کا شربت یہ میں نے آج تک دیکھا تک نہیں ۔۔ بڑے لوگوں سے گھر میں کتنی رونق ہوا کرتی تھی اب تو گھر کے بزرگ گھر میں نہ ہونے سے لگتا ہے گھر بے نور ہوگئے ہیں ۔ بہہہت بہت شکریہ بھائی اپنے قیمتی وقت دیکر پوسٹ لکھنے کے لئے ۔اللہ سلامت رکھے آپ کو صحت وعافیت کے ساتھ
جواب دیںحذف کریںجی یہ تو اپنی باتیں ہیں بندہ جتنا چاہے لکھتا ہی جائے۔ مسئلہ ہوتا ہے وقت کی قلت اور پڑھنے والوں کو بیزاری سے بچانا۔ ورنہ لکھنے کو تو زندگی کی چالیس دھائیاں ہیں
جواب دیںحذف کریںشکریہ کی ضرورت نہین تھی، آپ کا حکم سر آنکھوں پر
بہت خوب جناب عمدہ رمضان کی یادوں پر مشتمل تحریر. گھر کے بڑے بزرگوں کی باتوں میں بڑی حکمت ہوتی ہے کیا عمدہ انداز میں آپ کے دادا مرحوم نے رمضان المبارک کی تکریم کا انداز سکھایا. شکریہ ان یادوں کو ہم سے شیئر کرنے کا.
جواب دیںحذف کریںبزرگوں کی کیا ہی بات جناب اور پھر جب بندہ اُن کی یادوں کو تازہ کرتا ہے تو عجیب سا مزہ آتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںکوثر بیگ صاحبہ سمیت شعیب صفدر بھائی بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنے پہلے روزے کے بارے میں اتنی اچھی تحریر لکھ کر ہم سب کو بھی لکھنے کا حکم دیا۔ آپ نے اپنی تحریر میں اگلے پانچ بلاگرز کو ٹیگ نہیں کیا، جن کو آپ نے حکم دینا ہے کہ اپنے پہلے روزے کی روداد لکھیں۔ اپنی تحریر کے آخر میں اُن کے نام لکھ کر اُن کو پیغام پہنچا دیں۔
بہت ہی خوب ...
جواب دیںحذف کریںسب کی عمریں پتہ لگ رہی ہیں ... سردی گرمی سے ;)
بچپن کے روزے ہم جیسے بہتوں کی عمروں کا راز فاش کر گئے :)
جواب دیںحذف کریںاپنے وطن کی مٹی کی خوشبو سے مہکتی ۔۔۔بدیس کی فضاؤں سے ایک خالص دیسی تحریر.
جواب دیںحذف کریںبہت اعلیٰ تحریر
جواب دیںحذف کریںماشااللہ
جواب دیںحذف کریںگھر کے بزرگوں کے ہمراہ آپ کا "چڑی روزہ" بھی خوب رہا اور ساتھ میں آپ کی مادری زبان کی ترجمانی بھی اچھی لگی.
بزرگ انتہائی قابل احترام ہوتے ہیں خاص کر بچوں سے بہت شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں. اللہ تعالہ آپ کے "اجی جی" اور "دادی شاد" صاحبہ کی مغفرت فرمائے.
آپ بھی اپنے اجی جی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے افتار سے قبل نام بنام سب کے لیئے دعائے مغفرت کرنے سے آپ کے اجی جی کو دوہرہ اجر و ثواب ملے گا ، آپ کی دعا اور تقلید کا.
فاطمہ خان
بہت ہی سہانا احوال لکھا ۔۔۔۔ آنکھوں کے سامنے منظر تازہ ہوگئے ۔۔۔۔ اور اِن سوغآتوں کے مزے بھی محسوس ہوئے ۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںاور کمنٹس میں بہت سوں نے لکھا ۔۔۔ اب بزرگوں کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔۔ اب ہم بزرگ نہیں تو اور کیا ہیں ۔۔۔ ہمیں اچھے بزرگ بننا ہوگا ۔۔۔۔
سدا خوش رہیں