میلان ائیرپورٹ کا
احوال
یورپمیں رہنے اور
کئی بار نیت باندھنے کے باوجود پیرس نہ جا سکے اس برس پیرس میں منعقدہ فارماسیوٹیکل کی ایگزیبیشن میں جب
کمپنی نےاسٹینڈ لگانے کا اور کرڈالا مجھے فون ، کہ خان صیب ادھر چلو ہمارے ساتھ، آپ کی زبان دانیوں کی
ضرورت ہے۔
فلائیٹ اور ہوٹل کی
بککنگ کی رسیدیں بعذریہ ای میل وصول ہوگئیں۔
ہم پانچ بندے تھے، کمپنی کا ڈائیریکٹر ، سیلز مینجر انکی سیکرٹریز اور راقم
میری ایزی جیٹ کی فلائٹ تھی۔ فلائیٹ سے چند دن پہلے آن لائن
بورڈنگ کرنی تھی، ساتھ میں ہوٹل کو چیک کیا گیا گوگل میپ پر تو
علم ہوا کہ ہوٹل تو چارلس دے گال ائرپورٹ سے 30 کلومیٹردور "بوبینی Bobigni
" کے علاقہ میں ہے، جبکہ ایگزیبیشن چارلس دے گال سے ٹرین کے پانچ منٹ کےسفر پر ہے۔مطلب یہ تھا کہ مجھے پیرس اورلی سے ہوٹل پہنچنے تک پورا پیرس گزر کرجانا پڑے گا۔ ہت تیرے کی۔ ۔ میلان کی ائیرپورٹس سے تو
خیر واقفیت ہے پرانی سی۔ مگر پھر بھی اپنی پھرتیوں اور لیٹ نہ ہوجانے سے بچنے کو
تین گھنٹے پہلے ائیر پورٹ پر تھے۔
یہ بات مجھے ہمیشہ حیران کردیتی ہے کہ جب آپ جلدی نکلیں تو
سب ہی جلدی نکل آتے ہیں اور آپ وقت سے پہلے ہی منزل پر پہنچ چکے ہوتے ہیں، جب آپ
لیٹ ہوں تو ٹریفک کے اشارے تک سرخ ہوئے
آنکھیں دکھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ رک جا۔
میری ایک بجے فلائیٹ تھی اور میں گیارہ بجے ائیر پورٹ پر تھا۔ ہے ظلم کہ
نہیں۔
اب وقت گزارنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ موبائیل اور فیس
بک۔ میلان کی Milano"لیناتے Linate" ائیرپورٹ
پر مفت وائی فائی تھی۔ مگر ہونا کیا تھا , وہی جو ہوا۔ بیٹری جواب دے گئی۔
اب یار لوگوں نے چارجرکا
"جغاڑ" لگانے کا سوچا،
ادھر اُدھر دھیان فرمایا تو علم
ہوا کہ ابھی ترقی میں کچھ کمی ہے وائی فائی تو فری کردیا ہے انہوں نے مگر چارجنگ
کے بارے نہیں سوچا۔ مطلب گورا رہ ہی گیا۔
پوچھتے پوچھتے
معلوم ہوا کہ Europa
Assistance والوں کے کاونٹر پر پتا کروبس پھر ہم پہنچ گئے۔
ادھر ایک خاتون بہت خوش اخلاق و خوش شکل ، میرے فون چارج
کرنے کی اجازت مانگنے پر وہ مسکراہتی ہوئی اپنی سیٹ سے اٹھیں اور میرے
سامنے ہی ایک گول سے کاؤئنٹر پر بنے سوئیچ بورڈ کو دکھاتے ہوئے فون چارج کرنے کی دعوت دی۔
اب میرے پاس تقریباُ ایک گھنٹہ تھا اور لالچ بھی کہ فون
پورا چارج ہوہی جائے ۔
ویٹنگ لاؤنج میں اکا دکا بندہ گھوم رہا تھا۔ لوگ تو فلائیٹ کے وقت پر ہی آتے ہیں، کوئ میری طرح
"ویلے" تھوڑی ہیں کہ گھنٹوں پہلے ہی آجاویں۔
چند منٹوں بعد وقت گزاری کےلئے خاتون سے اسکی سروسز کے بارے
پوچھنا شروع کردیا ، مقصد ایویں چسکے لگانا اور وقت گزارنا تھا،
مگر نتیجہ الٹا نکلا ، خاتون نے بہت ہی محبت سے اور مسکرا
ہٹیں بکھیرتے ہوئے اپنی سروسز بیان کرنی شروع کردیں, اور ایسے
طریقے سے بیان کیں، کہ بس معلوم تب
ہوا جب میں اس سے اپنے پیرس کے اسٹے کی انشورنس کروا چکا تھا۔ چھ دنوں کی آٹھ یورو
میں۔
جب میں نے فارم پر اپنی قومیت پاکستانی لکھی تو فوراُ بولی
" اچھا تو آپ بھی غیرملکی ہی ہین؟"
میں : ہیں، ہاں، میں بھی کا کیا مطلب؟
وہ: "مطلب یہ کہ میں بھی غیرملکی ہوں اور آپ ہی سمجھ
سکتے ہیں کہ غیرملک میں جاکر رہنا اور سیٹنگ بنانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔"
میں : جی، ایسے ہی ہے۔ آپ کہاں سے ہین؟؟ میں تو آپ کو
اٹالین سمجھے بیٹھا تھا
وہ: " ارے نہیں ، میں پولینڈ سے ہوں۔ کراکوو سے ۔ اور میرا نام
"صوفیہ" ہے۔
میں: ہیں، اچھا
استاد یہ تو "پولی " ہے، مجھے اپنے
علی حسان کی پولیوں کے بارے میں سنائی گئی ساری کہانیاں یاد آگئیں۔
اور چونکہ غیر ملکی سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوتے ہیں، تو
ہم فوراُ آپ سے تم پر آگئے، اٹالین
لسانیات کے مطابق آپ دوری اور تم قربت کی علامت ہے۔ "جیلس ہونے کی مطلب حسد کرنے کی ضرورت
نہیں"، یہاں قربت سے مرآد انگریزی والی فرینکنس ہے۔
ایویں اسے دعوت دی
کہ میں تو کافی پینے کے موڈ میں ہوں، اگر تم چاہو تو میں تمھیں آفرکرتا ہوں۔
وہ ۔۔۔ لو یہ بات، بہت شکریہ، ابھی میں نے کافی پی نہیں بس
سوچ ہی رہی تھی۔ چلیں پھر؟؟
میں دل میں علی حسان کو اپنا پیرومرشد قرار دیتا ہوا چل پڑا
ادھر کافی بار پر۔ وہاں پر دو کالی زہر
کافی (بقول اپنے میاں سلام شانی صاحب
کے) کا کہا تو اگلے نے پوچھا۔ تو آپ ادھر
سروس میں ہیں، میرے بولنے سے پہلے صوفیہ
نے ہاں میں مونڈی ہلائی ، کاوئنٹر مین کی طرف سے ایک یورو ساٹھ سینٹ کی پرچی تھما
دی گئی۔ جبکہ عام طور پر ائیر پورٹ پر کافی کی قیمت اڑھائی یورو فی کس ہوتی ہے۔
پس اس قول پر
میرا ایمان پکا ہوگیاکہ ہر جو بھی آتا ہے
اپنا رزق لاتا ہے۔ اگر میں اکیلا کافی پیتا تو اڑھائی یورو دیتا۔ ادھر ڈیڑھ یورو
دئیے اور کمپنی بھی ساتھ میں۔ مگر یہ یادکرادینا بھی مناسب ہے کہ مہمان جسے آپ کافی آفر کررہے ہیں وہ ہو جس کے گلے میں
ائیرپورٹ کا ٹیگ ہو۔ ورنہ اڑھائی کو پانچ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
بس راجہ جی۔۔
جواب دیںحذف کریںاب میں نے اٹلی پہلی فرصت میں آنا ہے وقت نکال لیں یورپ گھومیں گے۔
ابھی کدھر جنابو۔ ابھی تو میں نے سفرنامہ لکھنے شروع کئے ہیں
جواب دیںحذف کریںاور لگ رہا ہے کہ میں نے چاچا مستنصر حسین تارڑ سے بھی زیادہ مشہور ہوجانا ہے
آپ آؤ بسمہ اللہ بس کچھ دن پہلے بتا دیں اور ان بیس دنوں میں نہ آنا، بیس دسمبر کے بعد جب چاہو۔ علی کو بھی پکڑ لیں گے، مزے کا بندہ ہے
ویلکم بیک ٹو دی بلاگ :)
جواب دیںحذف کریںھاھاھا
جواب دیںحذف کریںیہ کہانی آپ کو نہین سنائی تھی بلکہ آپ کو تو پیرس کی روداد سنائی ہی نہیں بس اب انتظار کیجئے اگلی قسط کا
کافی پینے کے ساتھ ساتھ جو گلاں باتاں ہوئیں وہ بھی تو بتائیں نہ۔ اور یہ بھی کہ بات صرف کافی پینے تک ہی رہی یا؟؟؟؟
جواب دیںحذف کریںجس رضا و رغبت اور رفتار سے آپ نے انشورنس کروائی ھے اس سے یہی خدشہ ھے کہ سفرنامے کے اختتام تک آپ کے ایک ہاتھ میں حسیناوں کے نمبروں پر مشتمل ایک پھولی ھوئی فون بک اور کسی لاوارث غبارے کی طرح پچکے ھوئے بینک اکاونٹ کی سٹیٹمنٹ ھو گی کیونکہ
جواب دیںحذف کریںسفر ھے شرط سروس پروائیڈر بہتیرے
ہزار ہا پولیاں و مولیاں راہ میں ہیں
جناب ہم تو سفر کری جارہے۔ پولیاں اور پولے تو پھر سفر میں ہوتے ہی ہیں۔ اور عمیر محمود صاحب کچھ باتیں نہ کرکے بھی بات میں تجسس برپا کیا جاتا ہے، اگر سب کچھ ادھر بیان کردیں تو پھر کہانی طویل اور بات پھسپھسی ہوجانے کا اندیشہ ہے
جواب دیںحذف کریںاس پوسٹ نے چاچا مستنصر ھسین تاڑڑ کے سفرناموں کی یاد تازہ کر دی، انہیں بھی ہر سفر پر کوئی نہ کوئی مہ جبیں دوشیزہ ٹکر ہی جاتی تھی۔
جواب دیںحذف کریںاس کا مطبل یہ ہوا کہ۔۔
جواب دیںحذف کریںعلی بھائی کا رنگ آپ پہ بھی چڑھنا شروع ہو گیا۔ مطلب ”پولیاں“ کا ”ڈاہڈا“ رنگ۔
باقی رنگ تو پہلے ہی بھتیرے تھے ۔
جاوید گوندل ۔ بارسیلونا
نہین جنابو ایسی بھی کوئی بات نہین ہے مگر علی نے پولیوں کے تازے تازے قصے سنائے ہوئے تھے تو پھر وہ سامنے بھی آگئی، بس کچھ اس میں اپنی چرب زبانی بھی سمجھیں
جواب دیںحذف کریں