گورے کے انتظامات کے اور پروگرامنگ کے تو ہم خیر روز اول سے
قائل ہیں، کہ جناب کسی چھوٹی سے
چھوٹی پروبلم کو حل کرنے اس کے پیچھے بس
ہے، اور وہ بھی پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کہ دوبارہ اس کا سامنا نہ کرنا پڑے، ہم سے
مراد ہماری پوری قوم لیجئے، بلکہ عوام
الناس پڑھا جائے، البتہ اگر اس میں شامل نہیں ہیں تو ہمارے
حکمران نہیں ہیں کہ انکو نہ تو کسی مسئلہ
سے کچھ لین دین ہے اور نہ ہی کسی طرح کی منصوبہ بندی سے۔ ویسے بہت سے
ذاتی معاملات میں ہمیں بھی دوسرے درجہ میں
ہی شمار کیا جائے یعنی نہایت ہی بدانتظام
پارٹی میں، بھلے ہمیں پیپلز پارٹی میں
شامل کرلو اس ضمن میں، اس پر کوئ اعتراض نہ ہوگا جسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چلو
حکومتی پارٹی تو ہے۔
کل رات کو ساڑے سات بجے نکلا گھر کو واپس آنے کو، لوٹ کہ بدھو گھر کو چلے۔ ابھی کوئی ایک سو ساٹھ کلومیٹر کا کل سفر ہے،
ساتھ ہی ویرونا سے ایک کولیگ ڈاکٹرصاحبہ کے ہاں پڑاؤ کرنا تھا، پروگرام
تھا کو ادھر کو ئی ایک گھنٹہ کا پڑاؤ کرکے
نکل لوں گا، پھر کیا تھا گاڑی کو لیتے ہی
تیسرے ٹریک میں ڈال دیا اور سپیڈ لمٹ پلس
مارج ملا کر 135 کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے بھگانا شروع کردیا، بس کوئی
چالیس کلومیٹر پیشتر ہی گاڑی کچھ بھاری سی محسوس ہوئی، سوچا کہ گیس شاید کم
ہورہی ہے، چلو پیٹرول پر کرلیتے ہیں، مگر تھوڑی دی میں ہی ڈگ ڈگ کی آوازیں اور پھر
گاڑی کا ہونا بے قابو، بے اختیار منہ سے نکلا
کلمہ اور پھر یہ کہ لوجی ٹائیر پھٹ گیا ہے، میرے سال 13 برس کی ڈرائیونگ کے
دوران یہ پہلا واقعہ ہے۔ خیر چاروں اشارے
لگائے اور گاڑی کرلی سیدھے ہاتھ کو، اللہ بھلا کرے اٹالین ڈرائیوروں کا جو بہت نیک
دلی سے مجھے فوراُ بریکیں لگا کر رستہ دیتے چلے گئے، کسی نے بھی ہارن تک نہ دیا،
ہمارے ادھر ہوتے تو دے دے کر ہارن بندے کو پزل کردیتے۔
خوش قسمتی سے ادھر ایمرجنسی کا ایریا تھا، اللہ اللہ کرکے گاڑی
روکی، شکر کا کلمہ پڑھا اور نیچے اتر کر
دیکھا تو ٹائیر کے چیتھڑے اڑچکے تھے۔ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کیا کہ جان بچ
گئی کون جانے کیا کچھ ہوسکتا تھا اتنی سپیڈ پر۔
ابھی ہماری منصوبہ بندی کا حال بھی سنئے، فوراُ ڈگی کھولی اور اسٹپنی والا ٹائیر
نکالا ، اوہو ہو، اسکی تو ہوا ہی نکلی
ہوئی ہے، پھر سوچا کہ چلو ٹائیر لگا لیتےہیں اور اسی پر پولے پولے اور ہولے ہولے
اگلے آٹو اسٹیشن تکے پہنچ جاتے ہیں جو ہمارے اندازے کے مطابق ڈیڑ ھ سے دو کلومیٹر
تھا۔ ، اب رسک تو لینا ہی پڑے گا ، کیوں جناب؟
ابھی جیک لگا کر
گاڑی اٹھا ہی رہا تھا تو یاد آیا کہ ماشٹر نے کہا تھا کہ پہلے ٹائیر کے نٹ کھول
لینا، ادھر پانہ ڈالا تو وہ خالی گھوم گیا، معلوم ہوا کہ وہ بھی فری ہویا ہوا ہے۔
اب تو سچ میں ہمارے ہوش کے طوطے ہی اڑگئے، ایک گبھراہٹ کا دورہ کہ اگر کوئی پاس
ہوتا تو ضرور کہاتا کہ ایک رنگ جا رہا ہے اور ایک رنگ آرہاہے، یا پھر ہوسکتا ہے
چہرے کا رنگ فق ہو چکا ہے۔ مگر اس وقت ادھر توجہ نہیں دی اور کمال دلیری اور
بردباری سے جیب سے فون نکالا اور خالد صاحب کو ملایا کہ ہمارے مہربان ہیں اور ٹرک
ڈرائیور ہیں ، وہی ہوا جوآپ سوچ سکتے ہو،
فون بند، جمیل صاحب بھی ٹرک ڈرائیورہیں
اور ہمارے لنگوٹئے بھی گو کہ ان سے ملاقات
ہوئے ایک ورہ بیت گیا ہے۔ جواب ندارد، شاہد کیانی ایک اور دوست ہیں جو ادھر نزدیک
رہتے ہیں شاید 15 کلومیٹر کے فاصلہ پر کہ یار پانہ ہی پھڑا جاؤ، مگر وہی بیل جانے کے بعد فون والی مائی نے صاف جواب دے
دیا کہ صارف جواب دینے سے قاصرہے، بندے پوچھے جو جواب نہیں دے رہا تو ظاہر سی بات
ہے قاصر ہی ہوگا، تو اپنی سائینس اپنے پاس ہی رکھ۔
اب تو ہمارے فل طوطے اڑے ، بلکہ ساتھ ہی چیل کواُ ، کبوتر
لالی بھی اڑے ہونگے۔
اڑتے ہوئے طوطے لالی سے ہی لفٹ لے لینی تھی
جواب دیںحذف کریںباقی فون والی ماسی پر گسہ اچھا نہیں آخر کو کمپیوٹر کی سہی ہے تو صنف نازک
پھر کسی نے پانا پھڑایا یا کسی گورے نے آکر گڈی ہاتھ سے چُکی؟
جواب دیںحذف کریںاس کے بعد کیا ہوا جی؟ بعد کے واقعات کا ذکر نہ ہونے کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ وہیں گاڑی کے ساتھ بیٹھ کر لکھی گئی ہے تاکہ کوئی آ کے پانہ پھڑا جائے؟
جواب دیںحذف کریںاور کہیں ابھی تک مدد کے انتظار میں تو نہیں بیٹھے؟
بجا فرمایا آپ نے ہم اکثر سیفٹی سے متعلق باتوں کو سرسری سی اہمیت دیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ جب مصیبت آئے گی تو دیکھا جائے گا۔ ہمارے ہاں اکثر گھریلو گاڑیوں کی سٹپنی میں ہوا نہیں ہوتی۔
جواب دیںحذف کریںاپ تو گوروں کے دیس میں کافی عرصے سے رہ رہے ہیں اپ کو تو اُن کے کچھ اثرات قبولنے چاہئے تھے بحرحال ایک تجربے سے انسان بہت کُچھ سیکھتا ہے ویسے ہم لوگ تو دس دس تچرے کر کے بھی ناسمجھ ہی رہتے ہیں ا
جواب دیںحذف کریںانشورنس والی مائی کو فون لگاتے بھائی جان وہ کسی بابے کو ٹائر چینگ کرنے کے لیے بیجھ دیتی
جواب دیںحذف کریںانشورنس والی مائی کو فون لگاتے بھائی جان وہ کسی بابے کو ٹائر چینگ کرنے کے لیے بیجھ دیتی
جواب دیںحذف کریں