مجھے ادھر اٹلی میں زمانے ہوگئے ہیں مگر کم ہی اپریل فول کے واقعات دیکھے ہیں، یہاں پر اپریل فول کی علامت مچھلی ہے، بس آنکھ چرا کر چپکا دی، کسی کے کاغذ کی بنی ہوئی مچھلی اور منچلے تالیاں بجاتے ہوئے نکل لیے، مزید معلومات کے مطابق، فلپائین والے یکم اپریل کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس دن سفر کرنے سے کتراتے ہیں، چائنا کی عوام کو اس کا اکثر علم نہیں، روس والے اسے مذاق کا دن قرار دیتے ہیں اوربالک لوگ ایک دوسرے کو بے وقوف بناتے اور ٹھٹھا کرتے ہیں۔
میرا اٹلی میں پہلا اور واحد اپریل فول دیکھنے کا اتفاق یہ تھا کہ فیکٹری میں جاب کرتا تھا، چھٹی کی، گیٹ پر رکا ہوا تھا کہ مین روڈ پر آتی ہوئی گاڑی نکل لے تو ہم بھی نکلیں، بس اس گاڑی کے پیچھے ہم بھی نکل لیئے، میرے ساتھ بیٹھے دوریانو (اطالوی کولیگ) کی ہنسی نکل گئی میں بھی حیرت زدہ رہ گیا ، کہ اس گاڑی کے پیچھے ایک بڑی سی موٹے کارڈ کی بنی ہوئی مچھلی چپکی ہوئی تھی اور اسکے اوپر لکھا ہوا تھا ٗ کہ میرے پیچھے مت آنا میں تو خود رستہ بھولا ہوا ہوںٗ ، دوریانو نے بتا کہ آج پہلی اپریل ہے اور اس کو کسی نے فول بنا دیا ہے، پھر مجھے مچھلی چپکانے کا قصہ بتایا، دیکھا تو تین مچھلیاں اوس کے چپکی ہوئی تھیں اور دو میرے۔
کل رات ہر پاکستانی چینل پر اپریل فول کے بائیکاٹ کی ہا ل ہال مچی ہوئی ہے، ادھر فیس بک پر بھی یہی حال ، کہ جی میں اپریل فول نہیں مناتا میں مسلمان ہوں، رات کو بھائی سے پوچھا کہ آپ نے گزشتہ برسوں میں کتنی دفعہ اپریل فول بنتے، بناتے دیکھا؟ کہنے لگے کہ مجھے تو کوئی یاد نہیں ، مجھے بھی وہ اوپر والا واقعہ ہی یاد ہے، مگر پاکستان میں ہے کہ عوام اپریل فول کا ہوا بنا کر اسکا بائیکاٹ کرنے پر تلی ہوئی ہے، کوئی پوچھے کہ میاں جی یہ کیا چکر ہے آپ کے پاس اپریل فول کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے؟؟ ہیں جی
جاؤ جاکر اپنا کام کاج کرو، اور چھوڑ دو اپریل فول کا کھتا۔ ہیں جی
اور پھر یہ کہ جب سب کچھ مغرب سے لے لیا ہے، ٹیکنالوجی، رقم، کاروبار، تعلیم، سود، حکومت، جمہوریت، حتیٰ کہ ضرورت پر وزراعظم اور دیگر وزراء بھی باہر سے لئے جاتے ہیں تو پھر اپریل فول تو معمولی سی چیز ہے، ویسے بھی ہم فول تو بنے ہوئے ہیں گزشتہ کئی دھائیوں سے، اگر اپریل کے ایک دن میں یار لوگ تھوڑا ہنسی مذاق کر بھی لیں گے تو کون سے دوزخ کے دروازے کھل جائیں گے جو پہلے پاکستانیوں پر بند ہیں۔
یہ مچھلی صرف کاغذ ہی کی ہوتی ہے
جواب دیںحذف کریںایسا نہیں ہوتا کہ گاڑی پر زندہ مچھلی رکھ کر چلے جائیں
اگر ایسا ہو تو ہم اپریل فول اٹلی سے در آمد کروانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں
راجہ صاحب میرئے خیال میں پاکستانی عوام کی یہ صورت حال ہوتی ہے کہ جو کام بھی کرتے ہیں تو اس حد تک کرتے ہین کہ مزاح کے بجائے نقصان ہوجاتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاب اس اپریل فول کو ہی لیجئے
بھائی مچھلی چپکا دی تو مزاح ہوگیا لیکن یہ کہا کہ گھر فون کرتے ہیں کہ جی فلاں کو اغوا کر لیا گیا۔
یا فلاں کا حادثہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں ہے۔اب اسکے گھر والے گھبراہٹ و پریشانی میں جلدی کرتے ہیں تو وہ الگ مسئلہ ہوتا ہے کہ کہیں انکے ساتھ حادثہ نہ ہوجائے۔
یا کمزور دل والے حضرات کے صحت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
تو یہ تو کوئی مذاق نہیں بلکہ خالص بے وقوفی ہے۔
تو جناب ان کا کیا کہنے۔
جناب ہر چیز کے استعمال پر ،اور اس بارے کسی کے رویّے پر کہ وہ اس کو کس تناظر میں دیکھتا پرکھتا ہے اور کس طرح اس پر عمل کرتا ہے، منحصر ہوتا ہے کہ اس کو اچھا یا برا سمجھا اور کہا جائے۔ ہلکا پھلکا سا مذاق کون نہیں کرتا اور کون ہے جو اسے نا پسند کرے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مزاح اور ہلکا پھلکا مذاق سبھی کی شخصیت کا ایک بنیادی حصہ ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی روز مرہ مزاح کرنے اور مذاق کرنے کا شغل کرتا رہتا ہے۔ اور کسی خصوصی دن پر کچھ خصوصی کرنا جو کہ اس دن سے خصوصی طور پر منسوب ہو کسی کو کیوں کر برا لگے گا، جب تک کہ حدود و قیود اور اندازِ مہذبانہ کی رعایت کے ساتھ ہو۔ جو لوگ اسے برا بھلا اگر کہتے ہیں تو ہمیں یہی خوش گمانی ہے ان لوگوں سے کہ وہ ضرور حد سے بڑھ جانے کو برا بھلا کہتے ہیں، نہ کہ ایویں ہی لٹھ لے کے کسی کے پیچھے بے سبب پڑ جانے کو ان کا دل کرتا ہے۔ یہ معاملہ بھی ویسا ہی ہے کہ جیسے بسنت۔ اب بسنت بذاتِ خود تو بری نہیں جب تک کہ اس میں حدود کی رعایت برتی جائے۔ مگر چونکہ قوم ہی ابھی مہذب ہونا نہیں سیکھ پائی تو اس بظاہر بے ضرر بسنت کو بھی پابندی کا سامنا ہے جب تک کہ قوم بسنت ک آداب سیکھ نہیں جاتی۔
جواب دیںحذف کریںپہلے کمنٹ کیا تھا اس میں رولا آگیا تھا اب نہیں یاد کیا لکھا تھا پر اچھا لکھا آپ نے اتنا ہی یاد رہا
جواب دیںحذف کریںیہ بونگیاں بہت ہوگئی ہیں آپ کی۔آپ اٹلی میں ہیں نہ آپ کو پاکستانی عوام کا نہیں معلوم کہ وہ کیسے لوگوں کو فول بناتی ہے چاہے اس میں کسی کی موت ہی کیوں نہ ہوجائے۔
جواب دیںحذف کریںمجھے تو آپ اب امریکی ایجنٹ اردو بلاگر لگنے لگے ہیں ویسے یہ آپس کی بات ہے
بلال صاحب لگتا ہے تپے ہوئے ہیں، بھائی جی ہمارے بلاگ کا عنوان ہی ہم اور ہماری دنیا ہے کہ جو ہم ہیں اور کررہے ہیں اور جو ہماری دنیا ہے اور کررہی ہے،
جواب دیںحذف کریںرہی بات کسی کی موت کی تو وہ ایک جرم ہے چاہے یکم اپریل کو ہو یا 2 اپریل کو، امریکہ ایجینٹی میں میں نے کیا کردیا، اگر آئینہ دکھانے بلکہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو، اس میں چہرہ تو اپنا ہی نظر آئے گا، جو ہے سو ہے، رہی بات پاکستان کے بارے نہ معلوم ہونے کی تو ایسی کوئی بات نہیں ہے میرا پاکستان جانا آنا بھی لگا رہتا ہے اور پورے رابطے سے ہوں، شاید پاکستان کو آپ اتنا نہ جانتے ہوں جتنا میں جانتا ہوں ، 30 برس ادھر ہی گزارے ، ابھی بھی سب کچھ ادھر ہی تو ہے۔
چھوڑیں جی مجھے معاف کردیں میں صرف یہ تحریر پڑھ کر تپ گیا ہے اب ٹھنڈا ہوں
جواب دیںحذف کریںمعافی ہی معافی ہے جی ہم نے کون سی آن لائین توپ چلانی ہے، مگر اس کمبنٹ کی اگر وجہ بھی بیان دیتے تو اچھا ہوتا، کیا لکھا گیا جس سے آپ تپ گئے، ہین جی
جواب دیںحذف کریںآپ کی اس بات نے مجھے بہت تپا کے رکھ دیا تھا اور ہے۔
جواب دیںحذف کریںاگر اپریل کے ایک دن میں یار لوگ تھوڑا ہنسی مذاق کر بھی لیں گے تو کون سے دوزخ کے دروازے کھل جائیں گے جو پہلے پاکستانیوں پر بند ہیں۔
پر حضرت اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے، پاکستانی قوم پر دوزخ کا کونسا عزاب ہے جو اس وقت نازل نہیں ہورہا، بجلی، گیس کی عدم فراہمی، معالجات و ادویات کی عدم دستیابی، اوپر سے ذرداری جیسا نیک حکمران کونسے دوزخ کے عذاب سے کم ہے، اپریل فول میں اس سے بڑا اور کیا ہوگا، ہیں جی
جواب دیںحذف کریںسوال یہ ہے کہ عذاب کس وجہ سے آرہے ہیں ؟؟؟
جواب دیںحذف کریںوجہ ہمارے اعمال ہیں۔جیسے اعمال ویسے حکمران اور جناب آپ اس جملہ کو کئی دفعہ پڑھیں کہ آپ نے اس جملہ میں کیا بات کہی ہے۔یہ بات کسی محفل میں یا کسی مولانا کے سامنے رکھ کر ان سے جواب طلب کریں تو معلوم ہو کہ اس میں کیا بیان کیا گیا ہے۔پڑھنے میں تو عام سی بات ہے لیکن اس کے الفاظ دیکھیں اور میں یہ بیان نہیں کرسکتا کہ کیا بیان کیا گیا ہے اس جملہ میں
میاں مولانا کے مطابق تو شاید ہم مسلمان بھی نہ ہوں، وہ تو ہر دوسرے کو دائرہ اسلام سے نکال رہے ہیں، آپ پوچھتے پھرو ان مولانا سے، جو خود تو ایک غیر سودی نظام تک نہیں دے سکے اور چلے اسلام کی تشریح کرنے ایک استعارے کے استعمال پر۔
جواب دیںحذف کریں