ہمارے ادھر آوے کا آوا
ہی نہین بلکہ باوے کا باوا بھی بگڑا ہوا ہے، ہمیں ہر اس چیز پر بات کرنا ہی پسند ہے جو
یورپ امریکہ میں ہورہی ہو، یا پھر جس پر یورپ و /یا امریکہ والے بات کررہے
ہوں، ملک بنا اور ٹوٹ گی ہم نے کہا چلو
خیر ہے ادھر روز سیلاب آیا کرتا تھا جان چھوٹی سو لاکھوں پائے، ویسے بھی یہ چھوٹے
چھوٹے بنگالی کونسے ہماری فوج میں بھرتی ہوسکتے تھے، دیکھو جی چھے فٹے جہلمی
جوانوں کے سامنے سوا پانچ فٹ کا بیالیس کلو بنگالی کیا کرے گا، اسکی وقعت ہی کیا
ہے، ہیں جی ،
اوپر سے وہ لحیم شیم سرخ و سپید پٹھان
واہ جی واہ ، وہ تو ہماری فوج کا حسن ہیں ، یہ وہ باتیں تھیں جو ہمارے پنڈ کے سابقہ فوجی
بابے کیکر کے نیچے بیٹھے کر تاش کھیلتے ہوئے کرتے تھے۔ ان
میں کئی ایسے بھی تھے جو
اکہتر میں بنگالی قیدی بھی بنے۔ مگر کیا ہے فوجی
کا کام ہے لڑنا مرنا اور ماردینا، یقیناُ
یہی اسکی قوت بھی ہے
مگر ان بابوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پینسٹھ میں جب انڈیا
پاکستان جنگ ہوئی تھی تو ہم دو محاذوں پر تھے اور انڈین فوج کو دوحصوں میں تقسیم کردیا تھا، وہی بنگالی پنجابی اور پٹھان کے شانہ بشانہ
لڑرہے تھے، مگر چھ برس بعد وہی انہی پنجابی و پٹھان فوجیوں کو بنگال تل رہے تھے
اور ادھر جو بنگالی مغربی پاکستان میں تھے
وہ ہمارے پنڈ کے ساتھ ہی چھاؤنی میں قید تھے، انڈین فوج کو مغربی محاذ سے تو پھر بھی کچھ نہ
ملا کہ ادھر کوئی بنگلالی نہ تھا مگر مشرقی محاذ پر پاکستانی فوج کو سرینڈر کرنا
پڑھا کہ ادھر بھی کوئی بنگالی انکے ساتھ نہ تھا بلکہ مخالف تھے۔
انڈیا نے 1965 والی کتا کھائی کا بدلہ لیا اور اپنے آپ کو
مشرقی اور مغربی پاکستان کے گھیراؤ میں سے نکال لیا ، ہیں جی ہے ناں سیانی بات۔
رات گئی بات گئی ، روٹی کپڑا اورمکان کا نعرہ لگا اور ہم
خوش۔ ہیں جی
امریکہ بہادر نے افغانسان میں ایڑی چوٹی کا ذور لگایا ، روس
کی طرح مگر وہی ڈھاک کے تین پات ، بقول علامہ پہاڑ باقی افغان باقی۔ ہیں جی پہاڑ
بھی ادھر ہی اورپٹھان بھی، مشرف کی حددرجہ بذدلی کے باوجود جب ہماری قیادت نے
تعاون سے انکار کردیا اور امریکہ بہادر کو
افغانستان میں آٹے دال کا بہاؤ معلوم ہوگیا ہے تو اسے یاد آئی کہ اہو ہو ہو
، بلوچستان تو تاریخی طور پر پاکستان کا حصہ ہیں نہیں ہے، ہیں جی،
اس کو آزادی دلواؤ، لو بتاؤ جی، بلوچوں کے ساتھ بہت زیادتی ہورہی ہے، کوئی پوچھے ماموں جان آپ نے پہلے جو فلسطین ، عراق، افغانستان اور ویتنام کو آزادی دلوائی ہے وہ کیا کم ہے؟؟ جو ادھر چلے آئے مگر کون پوچھے ہیں جی۔
ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا ہیں جی اور آپ نے بھی نہ بتایا، پہلے تو ذرداری و حقانی سے اندر خانے معاہدہ کرنے کی
سازش جو بعد میں میمو گیٹ کے نام سے چلی اور مشہور ہوئی، پھر ابھی بلوچستان
اور بلوچوں کے حقوق کی یاد آگئی۔
اصل بات یہ ہے کہ اگر بلوچستان کی پٹی امریکہ بہادر کے ہتھے
لگ جائے تو وہ اپنی من مرضی سے ادھر افغانستان میں رہ سکتا ہے بلکہ اسکا وہ جو
نیورلڈ آرڈر والا نقشہ ہے اس پر بھی کچھ
عمل ہوجاتا ہے۔ ادھر سے نکلنے کا رستہ بھی تو چاہئے کہ نہیں، مگر ہمیں کیا ہیں جی ہمارا تو آجکل ایک ہی نعرہ ہے جئے بھٹو ، پہلے
ایک تھا اوراب تو دو ہیں بے نظیر بھی تو شہید بھٹو ہی ہے ، جانے
کب تین ہوجاویں؟؟؟ کیونکہ ابھی جتنے ذرداری ہیں وہ بھی شیر کی کھال اوڑھ کر بھٹو بنے پھرتےہیں ان میں سے کل کلاں کوئی شہید ہوگیا تو ۔ میرا خیال ہے آپ سمجھ تو
گئے ہی ہوں گے، نہیں تو فیر آپ کو بتلانے
کا فائدہ؟؟؟ ہیں جی
سُنا ہے گیڈر کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کو دوڑتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ کو چائنہ شائنہ شہر لگ رہا ہواور وہ ہمارے بیڑے غرقاب کرکے چائنہ کا ویزا چاہتا ہو؟
جواب دیںحذف کریںجہاں تک میرا خیال ہے کہ چائنہ کبھی بھی کسی بھی صورت بلوچستان کو پاکستان سے الگ نہیں ہونے دے گا۔ پاکستانی بیوروکریٹس یا سیاہ ست دان کچھ کریں یا نہیں چائنہ ضرور چی پا چوں کرے گا اور امریکہ کی منجھی ٹھونکے گا
بلوچستان الگ تو نہیں ہو گا کہ آزاد بلوچستان ہر حال میں مغرب کا کھٹ پتلی بن جائے گا۔۔نا ہی بلوچستان کی ساری عوام یا قبیلے علیحدگی کا سوچ رہے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںبنگلہ دیش کی طرح بلوچی عوام پر ریاست میں موجود طاقتور فریق کے مظالم وہ بھی غیر قانونی ناقابل معافی ہیں۔۔ہمارا احتجاج یہی ہے کہ اگر کوئی مجرم ہے بھی تو اسے ریاست کی عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے۔غیر انسانی تشدد ختم ہونا چاھئے۔۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
جواب دیںحذف کریںنہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا۔ ۔