ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ, مئی 25, 2011

تیرواں نشان حیدر

پنجابی زبان بہت ہی قدیم اور تلخ ہے بندے کے سر میں اینٹ مارنے کے بعد ہنس کے کہہ دیا جاتا ہے پاہیو اسیں تے مزاک کررہے سی۔ کر لو گل۔ یہ کیسے ہے سکتا کہ بندہ جہلم میں پیدا ہو اور فوج کے معاملات سے دور رہے جائے، ہمارے ادھر ہر دوسرا بندہ فوج کا موجودہ یا سابق یاپھر ہونے وال سروس مین ہے۔ مطلب انہوں جی ایچ کیو ادھر پنڈی میں بنا کر غلطی کی ہے کہ بھی ادھر جہلم میں ہوتا تو سارے جی رات کو گھر آرام فرماتے۔ مگر خیر۔ آرام تو وہ اب بھی کررہے ہیں، جہاں بھی افسر ہو اسکو آرام تو ملتا ہی ہے۔ اسکول کے زمانے سے ہی کتابوں میں نشان حیدر کہ بارے میں اتنا کچھ پڑھ چکے تھے پھر گھر میں چچاجان اپنی بقول انکے اپنے پی لیو پر آتے تو دو ماہ میں تمغہ بصالت سے لیکر نشان حیدر تک سارے مردان غازیان اور شہیدگان کے نام بمعہ جملہ کارنامہ جات زبانی ازبر کرواجاتے۔ پھر تاریخی کتاباں پڑھ پڑھ کر اپنے آپ کو کم از کم تاریخ اسلام یعنی اسلامی جنگجوؤں کا عالم سمجھتے اور دوسروں کو اس پر قائل کرتے رہے۔ پھر جان پھنسی شکنجے اندر اور فکرمعاش نے سب کچھ بھلا دیا، یہ کتاب اور وہ کتاب اس موضوع پر ریسرچ اس پرمسائل کا تازہ ترین حل۔ مگر یہ فوجی ہیرو کبھی کبھی آکر رات کو دماغ میں ٹھونگے مارتے ہی رہتے اور ساتھ میں ہمارے بزدل اور کم عقل ہونے پر قہقہے بھی لگاتے۔۔۔۔ کہ دیکھو کونسا بندے مارنے والے پیشہ اس نے اختیار کرلیا ہے اور مرنے کے فوائید اور شہید ہونے کے ثواب کو اسلامی کتابوں میں ہی پڑھ پڑھ کر خوش ہوتا ہے۔ خیر دل کے پھھولے جلاتےر ہے مگر بقو ل ابے اب کے ہوئے کا کیا ہوت جب کھوتے چگ گئے کھیت۔ چڑیوں والا محاورہ صیح نہیں ہے۔ جملہ احباب آئندہ سے کھوتے ہی چگایا کریں اور کوشش کر کے محاورے غلت نہ بولا کرٰیں۔ کارگل کی جنگ کے ہیروز کو تمغہ جات کی تقسیم کے بارے میں ہم چپ رہے کہ ہمیں نہیں بھی ملا تو خیر ہےکہ ہماری حیات مبارکہ میں یہ پہلی تقسیم تھی۔ مگر اب کے ہم چپ رہنے کو نہیں ، سنا ہے کہ باباجی حاکم علی ذرداری یعنی کہ جناب والد گرامی حضور صدر پاکستان و پیپلز پارٹی و قبلہ دادا حضوور جناب بلاول ذرداری پہلے و بعد ازاں بلاول بھٹؤ ذرداری پکے چیئرمین پی پی پی پی پی مطلب پکی پکائی پانڈہ پھوڑ پارٹی و سسر مبارک مندجنابہ بے نظیر بھٹو مرحومہ و شہید شہدہ کو اس لیئے نشان حیدر دیا جارہا ہے کہ وہ اللہ آئی سے عین اسی دن بقول ہماری باجی جاناں کے اسی دن فوت فرما گئے تھے جس دن کراچی پی این ایس پر حملہ ہوا اور سست گاؤں والوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ لٹ کر لے گے۔ ( نوٹ جو ان نکات کا مطلب جان گیا ہے وہ دوسروں کو کان میں بتادیے) ۔ یہ بلاول بھٹؤ زرداری کے بارے میں یاد آیا کہ عربی زبان میں اگر کسی کو گالی دینا ہو تو اس کو ابن امی کہ کرپکارتے اور اسکی ہتک کرتے ہیں مطلب اس کے والد گرامی کا صحیح اندازہ لگانے کےلئےڈی این ایے ٹیسٹ کی ضرورت ہے۔ اٹلی میں بھی سرنیم باپ کا ہی لیا جاتا ہے البتہ اگر با پ کا معاملہ شک و شہبہ میں مبتلا ہو تو ہی ماں کا سر نیم دیا جاتے ہے۔ بلاول بھٹو ذرداری کے نام نامی کے بارے بندہ صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔ یعنی کہ سوچ سوچ کر مت ہی ماری گئی ہے۔ وزیر اعظم جناب سیدیوسف رہ گیر گیلانی جنکے کچھ رشتہ دار قریشی اور باقی میانے کہلاوت ہونگے نے صدر پاکستان عرف صدر بی بی شہید کروا پارٹی کو اس نشان حیدر کی سفارش کردی ہے۔ تو جناب قاریئن آپ سے التماس ہے کہ آپ میں سے کل کلاں کوئی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوجائے، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے غلطی سے کچھ بھی ہوسکتا ہے ( یہاں تک کہ ساتھ اور دو گیا رہ ہوسکتے ہیں، آپ وزیر اعظم بن سکتے ہیں اور بندہ کو تیرواں نشان حیدر مل سکتا ہے، بقول غالب دل بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے۔) تو وہ کسی بھی جگہ ہونے والے بم دھماکے سے ایک دن پہلے بندہ کو اطلا ع کردیں تاکہ ہم موقع کی مناسب سے فوت فرما کر نشان حیدر حاصل کرلے اور یاد رہے کہ یہ تیرواں نشان حیدر ہوگا۔ بیچ کے نمبروں کی گنجائیش حفظ ماتقدم کےطور پر بہت سوچ بچار کرکے رکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ بندہ کو صرف نشان حیدر سے دلچسپی اسکے ساتھ ملنے والی لمبی رقوم اور مربعوں سے، باقی بندوق وردی، جھنڈا تو ہماری لحد مبارک پر رکھ دیے جائیں گے اور ڈنڈا کے آپ کو دینے بارے اسی دن یعنی کہ قبل از مرگ وصیت کردی جائے گی بقلم خود تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔ کون جانے کل کلا ں آپ کو ہی کوئی پوچھ بیٹھے کہ میں یہ ڈنڈا آپ کو کس نے دیا ہے؟

6 تبصرے:

  1. اچھی تحریر ہے
    فوج کبھی ہمارا افتخار تھی لیکن سیاست میں لپٹ کر اس نےاپنا بیڑہ غرق کرلیا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ نے نشانِ حيدر کا قصہ چھيڑا ہے تو ياد آيا کہ 1965ء ميں صرف ايک نشانِ حيدر ديا گيا تھا عبدالعزيز بھٹی کو جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغير دشمن پر 3 دن گولہ باری کرواتا رہا ۔ دشمن کو وہاں سے لاہور کی طرف نہ بڑھنے ديا اور دشمن کا گولہ لگنے سے شہيد ہوا
    1971ء ميں مشرقی پاکستان کھونے اور 80 ہزار فوجی قيد ہونے کی خوشی ميں قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے 6 نشانِ حيدر دے کر اس تمغے کی عزت خاک ميں ملا دی ۔ اس کے بعد پرويز مشرف نے کرگل ميں اپنے کمانڈو مروا ديئے مگر اس سے انکار کرتا رہا ۔ جب 3 کی لاشيں بھارت نے دہلی ليجا کر اپنے ٹی وی پر دکھا ديں تو ان ميں سے ايک کيپٹن کو نشانٍِ حيدر دے کر اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کی کوشش کی

    جواب دیںحذف کریں
  3. میجر راجہ عزیز بھٹی کی بجائے پاک فوج کی وہ دو کمپنیاں نشان حیدر کی زیادہ حقدار تھیں جنہوں نے بی آر بی کے اُس پار اور بھارتی سرحد کے درمیان پتلی سی پٹی پہ بھارتی یلغار کو متواتر اس وقت تک روکے رکھا جب تک پاکستان کو اچانک بھارتی حملے کی باقاعدہ اطلاع نہ مل گئی اور تازہ کمک پہنچنے تک وہ دو کمپنیاں گوشت کی بوٹیوں میں تبدیل ہوچکی تھیں مگر انہوں نے کمال جذبے کے ساتھ بھارتی یلغار کو بی آر بی نہر کے اِس طرف باوجود سخت حملے اور گولہ باری کے نہیں پہنچنے دیا اور وہ اپنی جانوں پہ کھیل گئے۔ ورنہ لاہور پہ قبضہ کی منصوبہ بندی کی جزئیات اسطرح تھیں کہ بی بی سی نے لاہور پہ بھارتی قبجے کی خبر بھی جاری کردی تھی۔ پاک فوج کی ان دو کمپنیوں شہید ہونے والوں کے لئیے لاہور میں محض ایک یا گار قائم کی گئی تھی جن پہ ان کے نام اور عہدے لکھے تھے۔ ان کے خاندانوں کو ان شہید ہونے والوں کا جسد خاکی نام کی کوئی شئے نہ بیجھی جاسکی کیونکہ وہاں بی آر بی نہر کے اُس پار محاز پہ انسانی جسم کے اڑے ہوئے پرخچوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچا تھا

    جبکہ جیسا کہ راجہ عزیز بھٹی شہید کے بارے جیسا کہ عام طور پہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ بی آر بی کے اس پار او پی یعنی ابزرویشن پوسٹ سے دشمن پہ گولا باری کرواتے ہوئے شہید ہوئے ۔ یہ حقائق درست نہیں۔ میجر راجہ عزیز بھٹی بھارتی سرحد سے کافی پیچھے بی آر بی کینال کے پل پہ اپنے ٹینک میں اپنے ٹینک کی کمان کرتے ہوئے جب اپنا دھڑ باہر نکالے ہوئے تھے تو بھارت کا ایک گولہ سینے میں لگنے شہید ہوئے۔

    شنیدن یہ ہے کہ میجر راجہ عزیز شہید بھٹی کی اہلیہ تب گجرات میں ایک کالج میں لیکچرار تھیں اور کالج کے اسٹوڈنٹس نے انکی معیت میں اپنے شوہر کو نشان حیدر دلوانے کے لئیے مظاہرہ وغیرہ بھی کیا تھا۔

    پاکستان کے نشان حیدر پانے والے شہیدوں کے نام یہ ہیں۔ کیپٹن محمد سرور شہید (1948) · میجر طفیل محمد شہید (1958) · میجر راجہ عزیز بھٹی شہید (1965) · میجر محمد اکرم شہید (1971) · پائیلٹ آفیسر راشد منہاس شہید (1971) · میجر شبیر شریف شہید(1971) · جوان سوار محمد حسین شہید(1971) · لانس نائیک محمد محفوظ شہید (1971) · کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1999) · حوالدار لالک جان شہید (1999

    جواب دیںحذف کریں
  4. جناب وہ لوگ تو پھر بھی مرتے مرتے کچھ کر ہی گئے ہیں اور جس نے شک کیا وہ گمراہ ہو ا کے مصداق ٹینک سے سرنکال کر گولہ کھا ہی گئے۔ مگر اب تو کچھ بھی نہیں ہے۔ بس دیکھ تماشہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. بلاگ کے وزٹ اور تبصرے کا شکریہ ۔
    آپ تو ماشااللہ لنگوسٹ بھی ہیں اور ہماری بات سمجھ بھی سکتے ہیں ۔ ہماری اردو اور انگریزی دونوں ہی کمزور ہیں جبکہ انگریزی کے الفاظ کیلئے اردو رسم الخط کا استعمال گوگل کو ڈائیریکٹلی ٹرانسلیٹ کرنے سے روکنے کیلیئے شرارتا کیا جاتا ہے جی ۔
    آپ کا یہ آرٹیکل اور اس میں استعمال ہونے والا مزاحیہ طنز دونوں ہی بہت اچھے ہیں ۔
    بلاگ کے وزٹ کرنے کا ایک دفعہ پھر شکریہ ۔ امید ہے آنا جانا لگا رہے گا ۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں