شاہ جی کا خیال تھا کہ پیدل چل کر تین سو بچائے جاسکتے مگر داؤد بلکل راضی نہ تھا، اس کے خیال میں شاہ جی صرف اور صرف کنجوس ہیں اور کچھ بھی نہیں، میں البتہ شاہ جی کے ساتھ متفق تھا کہ ناران سے سیف الملوک جیپ پر جانے میں نہ صرف پیسے خرچ ہونگے بلکہ راستے کے بہت سے نظاروں سبھی محظوظ ہونے سے رہ جائیں گے، صابر کا خیال تھا کہ ہم دونوں غلط ہیں مگر وہ جو کڑیوں کی ٹولی ہے اگر وہ پیدل جائے تو ہم بھی پیدل اور اگر وہ جیپ پر جائے تو ہمارا جیپ پر جانا ہی لازم ٹھہرا، پس اسی بات پر داؤد کا بھی اتفاق ہے اور کہ وہ ہم سب کو کنجوسوں میں اور کھتریوں میں شامل کرتا ہوا چل پڑا، ظلم یہ ہوا کہ آدھ گھنٹا پیدل چلنے کے بعد ہم کڑیوں کے ٹولے سے آگے نکل گئے تھے اور صابر کی راہنمائی میں انکا انتظار کرنے لگے ایک پتھر پر بیٹھے، میں اور شاہ جی ادھر ایک چٹان پر لپک کرجھیل سے گرنے والے شور مچاتے دریا کو اپنے پرانے سے یوشیکا کے اندر بند کرنے کی احمقانہ کوشش کرنے لگے، داؤد کسی بکروال کے ساتھ گپیں ہانکنے لگا، اور صابرکڑیوں کے اس دریائے کنہار کی طرح کھنکھناتے ہوئے ٹولے کا انتطار کرنے لگا، کافی وقت گزرا تو شاہ جی کو فکر ہوا کہ لڑکیاں کدھر گئیں اور پر تشویش انداز میں صابر سے پوچھنے اوپر چلے گئے تو معلوم ہے کہ وہ تو نیچے سے جیپ میں بیٹھ چلی گئی ہیں، پس داؤد اور صابر کی وہی پرانی کتا کھائی چل پڑی کہ میں نے تجھے کہا تھا مگر تم یہ اور کہ میں وہ میں سفرکٹتا گیا اور اوپر جاکر معلوم ہے کہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے جیپ ادھر تک ہی جا سکتی ہے اور اسکے بعد کڑیوں کو پیدل ہی جانا ہوگا، اب پھر صابر کی باچھیں کھل گئیں اور اس کے منہ سے رالیں ٹپکتی ہوئی صاف دکھ رہی تھیں، ابھی جاری ہے۔
Post Top Ad
Your Ad Spot
منگل, مئی 03, 2011
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
ناران سے سيف الملوک پيدل جانا بہتر ہوتا ہے بشرطيکہ پہاڑ پر چڑھنے اور برف پر چلنے سے ڈر نہ لگتا ہو
جواب دیںحذف کریںہا ہا ہا
جواب دیںحذف کریںتین مرد کیا چاہیں۔۔۔ لڑکیوں کا ٹولہ۔۔۔۔