جہلم شہر سے تیرہ کلومیٹر شمال کو ہمارا گاؤں گٹیالی دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے حد یہ کہ نوجوانی کے زمانہ میں صبح شام دریا کے پانی میں ڈبکی لگائے بغیر نہ دن شروع ہوتا اور نہ ہی ختم، ہمارے گردونواح کا حصہ بمعہ بیلہ جو تقریباُ بیس برس پہلے تک جب ہمارے دادا جی زندہ تھے کاشت بھی ہوتا تھا مونگ پھلی، تربوز اور تمباکو کی پیداوار کے گردو نواح میں مشہور، بعد میں تعلیم نے کاشکاری کو زوال پزیر کیا اور سب نے ہاتھ کے بجائے دماغ سے کمائی کرنے کی کوششیں شروع کردیں، آج آپ کو سارے فوج کی سروس میں، ڈاکٹرز، وکلاء، انجنئیر اور بیرون ملک ڈش واشر وغیر ملیں گے، بیلہ کے علاقہ میں کاشتکاری ختم ہوچکی البتہ آزاد کےعلاقہ میں اکا دکا کاشتکاروں اور مویشی پالنے والوں کے ڈیرے مل جائیں گے۔ جہاں ہماری حد ختم ہوتی ہے وہاں سے آزاد کشمیر کی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔ محکمہ مال کے نقشہ دیہہ جسے عرف عام میں لٹھہ کہا جاتا ہے کہ سوت کے ایک کپڑا پر کسی ماہر پٹواری نے ہاتھ بنایا تھا اور اتنا پیچدہ ہے کہ ہر مقدمہ میں اسکی تشریح اتنی مختلف ہوتی ہے کہ مقدمہ ختم تک نہیں ہوپایا۔ اس کے مطابق جو آخری بار انیصد چالیس میں مرتب ہوا۔ آزاد کشمیر اور ہمارے دیہہ کی سرحد تقریباُ 3 کلومیٹر ایک ساتھ میں چلتی ہے، اس علاقہ میں مچھلی اور سؤروں کا شکار بکثرت ہوتا ہے اور سردیوں میں مرغابی اور تلیر بھی پھڑکائے جا سکتے ہیں نشانہ اچھا ہونا شرط ہے، اور غیر قانونی طور پر کتوں اور مرغوں کی لڑائیاں بھی بیلہ میں ہوتی ہیں۔ آپ اسے جہلم کا علاقہ غیر ہی سمجھیں کہ اکثر اوقات مفروروں وغیرہ کی موجودگی کی بھی افواہیں اٹھتی رہتی ہیں اور پولیس کی طرف سے چھاپوں کی بھی اطلاع ملتی ہے اور پھر تماشایوں کی بھاگھم بھاگ کی بھی جسے لیاقت بھائی پھڑلو پھڑلو کا نام دیتے ہیں
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعرات, دسمبر 17, 2009
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
خود اپنی تلاش اور اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف طالب علم۔ اس سفر میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں، اس میں سے کچھ تصاویر الفاظ کے ذریعے کھینچی ہیں جو بلاگ پر لگی ہیں۔
ڈاکٹر راجہ افتخار خان
کیا یاد کرا دیا آپ نے ۔ بہت زبردست علاقہ ہے جہاں جہلم اور آزاد جموں کشمیر کی سرحد ملتی ہے بالخصوص بیلہ ۔ بیلہ اُجڑ گیا اس کا بہت افسوس ہوا ۔ میں نوجوانی اور جوانی کے زمانہ میں اسی علاقہ سے گذر کر میر پور ۔ ڈوڈیال اور رتہ جایا کرتا تھا وہ علاقے تو اب منگلا جھیل کے پانی کے نیچے ہیں
جواب دیںحذف کریںہائے جہلم۔۔۔
جواب دیںحذف کریںصبح صبح ٹرین جہلم کے سٹیشن پر رکی ہوتی تھی۔ بچپن میں کئی بار ٹرین اور بس پر جہلم سے گزرا۔۔ ایک بار سکول کی وردی وہیں سے لی تھی۔ وہ بازار اب تک یاد ہے، میں اس وقت سات سال کا تھا۔
اڑھائی سال سے زائد عرصہ منگلا میں گزارا