آج کل پاکستان کو میدان جنگ دینے کے بارے میں امریکی بیانات زور کرچکے ہیں اور پاکستانی حکومت دبے لفظوں میں احتجاج کے ساتھ جوابی کاورائی کا حق محفوظ رکھنے کا دعواہ کررہی ہے۔ کہ اگر اب کے بغیر پیشگی اجازت حملہ ہوا تو ہم جوابی کاروائی کریں۔
کچھ دوست طالبان کی مخالفت میں امریکی کاروائیوں کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ مگر یہ بھول رہے ہیں کہ یہ پاکستانی طالبان کسی کی پیداوار ہیں۔ ان کو کم سے کم پاکستانی فورسز تو فیڈ نہیں کررہیں جیسے کہ افغانستان میں طالبان تحریک کے بارے میں کہا جاتا ہے، بات سمجھ میں آتی ہےکہ ادھر پاکستانی فورسز کے مفادات تھے مگر شمالی علاقوں میں ہونے والی طالبانی کاروائیوں کی سرپرستی کون کررہا ، لازمی طور پر وہی کریں گے جن کے حق میں پیدا ہونے والے یہ حالات ہیں۔ بلکل جس طرح اسامہ بن لادن کا ہوا بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا مگر کیا برآمد ہوا؟ جیسے خطرناک ہتھیاروں کو بنیاد بنا کر عراق پر حملہ کی کیا گیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، اب طالبان کی بنیاد پرپاکستان پر حملہ۔ گویا یہ تحریک بلکل اسی طرح امریکی پیداوار ہے جس طرح گیا ستمبر کا ڈرامہ ہو، یا صدامی ڈیزائین۔
ایک بار پھر کہوں گا کہ امریکی کاروئیوں کو روکنا ہوگا۔ فوج اور حکوم کو چاہئے کہ سب سے پہلے اس معاملے کو اقوام متحدہ
میں اٹھائیں۔ اور آئندہ ہونے والی ہر کاروئی کا دانت توڑ جواب دیا جائے۔
میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں بطور قوم دفائی پالیسی ترک کر کے جارحانہ اندازاپنانا ہوگا۔ بطریق " ہم تو ڈوبیں گے
صنم تمیں بھی لے ڈوبیںگے۔
America Pakistan se he Pakistan Haath katwana chaha raha hai, aur kisi had tak iss main kamyab bhi ho raha hai.
جواب دیںحذف کریں