کوئی قوم دوسری زبان میں ترقی نہیں کر سکتی تو یہاں یورپ میں انہوں نے اپنے امیگریشن قوانین سے لے کر کرنسی تک ایک کرلی ہے زبان ایک نہیں کر سکے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ماہانہ رسالہ “اسپرانتو“ میں بہت سال پہلے تب میں پاکستان ہوا کرتا تھا پڑھا تھا کہ: “ یورپین پارلیمینٹ میں یورپ کی مشترکہ اور رابطہ کی زبان انگریزی کرنے کا بل پیش ہوا تو جرمنی کے وزیرِخارجہ نے نقطہّ اعتراض پر کہا تھا کہ کیا آپ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پورے یورپ میں صرف انگریز ہی درست بول سکیں اور وہ یونین کا اقتدار سنبھال لیں ایسا کبھی نہیں ہوگا“ تاریخ گواہ ہے کہ اہل اسلام نے اپنے علمی عروج کے زمانہ میں یونانی نہیں سیکھی بلکہ یونانی علوم کو عربی میں منتقل کیا، پھر جب اہلیانِ یورپ نے ترقی کی تو انہوں نے بھی عربی زبان جو علوم کا گڑھ تھی نہیں سیکھی مگر القانون کو اپنی زبانوں میں سترویں صدی تک پڑھایا۔ پس ہم کہہ سکتےہيں کہ کسی بھی غیر ملکی زبان سیکھنے کا مطلب قربانی دینا ہے اپنے معاشرے کی اور ثقافت کی۔ انگریزی سیکھنا کبھی معیوب نہیں مگر اسکے پیچھے پاگل ہوجانا اور اپنی زبان کو نیچ سمجھنا معیوب ہے
غیر ملکی زبان سیکھنا معیوب نہیں بلکہ اس کا اپنانا معیوب ہے۔ یہ بات آپ انگریزی کی واضع مثال سے خود ہي جانتے ہيں۔ آج کل کے دور میں انگریزی سیکھے بغیر جدید علوم پر دسترس حاصل کرنا ناممکن ہے لیکن بحیثیت قوم ترقی کرنے کے لیے اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اردو کو ترویج دینا ہوگی
میری ایک کزن پاکستان سے ہسٹو پیتھالوجی میں سپیشلائزیشن کر رہی ہیں، انہوں نے مجھےپاکستان سے روانگی پر کہا کہ بھائی مجھے سرجیکل پیتھالوجی کی ایک فلاں والی کتاب چاہیے لازماُ انگریزی میں مگر یہاں احوال یہ ہے کہ اٹالین میں وہ کتاب دستیاب ہے مگر انگریزی والی یو کے سے منگوانی پڑے گی اور ڈاک کا محصول بھی چارج ہوگا۔ یہاں پر انگریزی کتاب نایاب ہے مطلب انگریزی سکھانے والی تو بہت ہیں مگر انگریزی میں علم والی نہیں ہیں۔
پاکستان میں توبشمول اردو سب کی حالت ہی پتلی ہے، مگر ہندوستان میں بھی ایسا ہی دکھ رہا ہے۔ اور میرے خیال میں اسکی واحد اور پہلی وجہ اردو دانوں کی بے اعتنائی ہے، ہم اردو کی محبت میں دو غزلہ بلکہ سہ غزلہ بھی لکھ سکتے ہیں مگر جاوا کا پروگرام اردو میں ترجمہ نہیں کرسکتے۔ بولیں گے پنجابی اور لکھیں گے اردو، جبکہ علم انگریزی میں حاصل کریں گے تو اردو کا مستقبل تو لازم مخدوش ہوگا۔
راجہ صاحب ۔ آپ نے تو دل خوش کر دیا ۔ اٹلی کی بجائے اس وقت جہلم میں ہوتے تو آج ہی پہنچ کر آپ کا سر چوم لیتا ۔ میں پینتیس سال سے یہی بات اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اللہ کرے انہیں سمجھ آ جائے
جواب دیںحذف کریںآپ نے بات بڑے کام کی کے ہے مگر اب دنیا اس قدر پھیل چکی ہے کہ کوئی بھی کام کسی ایک شخص کے بس کا نہیں رہا۔ اب تو ٹیم ورک بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اس ٹیم ورک کیلۓ یا تو قوموں کو کچھ کرنا ہوگا یا پھر حکومتوں کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا اور یہ دونوں کام فی الحال ناممکن دکھائی دیتے ہیں کیونکہ قومیں سوئی ہیں اور حکومتیں غیروں کے ایجینڈے پر عمل پیرا ہیں
جواب دیںحذف کریںسمجھ تو ایک نہ ایک دن آ ہی جاۓ گی مگر
جواب دیںحذف کریں100 گنڈوں اور 100 چھتر والا معملا نہ ہو جاۓ