بہت کچھ تبدیل ہو
سکتا تھا ،
نئے چہرے لائے جانا ایک بڑی
تبدیلی ہوتی، نوجوان قیادت ہوتی، چالیس
برس سے اوپر کے کسی بندے کو ٹکٹ نہ ملتی کہ یہ لوگ اپنے پانچ سال کے مقامی حکومتوں
میں تجربے کو اور مقامی مسائل کو سمجھ کر
آگے لے جا سکتے تھے۔
تبدیلی یہ ہوتی کہ سب لوگ نئے ہوتے، چہرے نہیں بلکہ
نئے، ایسے لوگ جو پہلے سے ہی مشہور اور
کرپٹ سیاہ سی خاندانوں کے سپوت نہ ہوتے۔
تبدیلی یہ ہوتی کہ
یہ سارے لوگ پڑھے لکھے ہوتے، اعلٰی تعلیم
یافتہ لوگ آگے آتے۔ جو اپنے علم اور تجربے
کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کے
مسئلے حل کرتے۔
پرانی "سیاہ
سی" پارٹیوں سے تو امید کم ہی رہی ہے مگر تحریک انصاف خاص طور پر اس بات کا
نعرہ لگاتی رہی ہے، اور انکے "چالے" دیکھ دیکھ کہ ہم یہ کہتے رہے کہ یہ بھی ایک سیاہ سی
پارٹی ہے، باقیوں کی طرح۔ ہم دیکھتے رہے کہ وہی مچھلیں ایک مرتبان سے دوسرے میں چھلانگیں مارتی رہیں۔
صرف نعروں سے تبدیلی نہیں آتی، اگر ایسا ہوتا تو سب سے
بہترین نعرہ پیپلز پارٹی کا تھا،
"روٹی ، کپڑا اور مکان"۔ مگر چونکہ یہ صرف ایک نعرہ ہی رہا عملی کام کچھ
بھی نہ ہوا ، تو جنابو موقع ملتے ہی عوام
نے اس پارٹی کا دھڑن تختہ کردیا۔ بھٹو "زندہ ہے " کا نعرہ دب گیا ہے۔
اب تبدیلی اگر صرف
آسکتی ہے تو تو وہ ہے کچھ کرنے سے، دوسروں پر تنقید ضرور کرو، مگر خود بھی کچھ
کرو، تاکہ جو دوسرا کچھ کررہا ہےاسکو اپنے نمبر بنانے کو کچھ بڑا کرنا پڑے۔
بجا ارشاد
جواب دیںحذف کریںکمال لکھا پر اگر بات تبدیلی کی کریں تو تبدیلی تب آئے گئ جب ہم خود کو بدلیں گئے
جواب دیںحذف کریں