اسکول کے زمانے سے ہی تاریخ پڑھنے کا بہت شوق تھا،
صرف تاریخ ہی کیا، سفرنامے، آپ بیتیاں، جغرافیہ ہو ، یا پھر کوئی اورموضوع، بس کتاب ہونی چاہئے اور
وہ بھی نصاب کی نہ ہو، یہ نسیم حجازی کے
اور ایم اسلم راہی کو موٹے موٹے ناول لاتے
اور راتوں رات پڑھ کر سوتے۔ عمران سیریز، عنایت اللہ، سے لیکر شہاب نامہ تک پڑھ
ڈالا مگر ان ساری کتابوں کے اندر اپنا کوئی ذکر تک نہ تھا، نہ کوئی حوالہ نہ کوئی نام و نشان۔
تاریخ ابن خلدون کی کئی جلدیں کھنگال ماریں۔ یہ اسکندر اعظم
سے لیکر انگریزوں کی آمد و جامد تک سب دیکھ مارا۔ مگر وہی ڈھاک کے
تین پات، اپنے
بارے کچھ بھی نہیں ملا، گویا اپنا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ یہی حال پوری تحریک
پاکستان میں رہا، پوری تحریک پاکستان میں اپنا کوئی حصہ نہیں نظر آیا، سرسید احمدخان ، مولانا برادران، علامہ اقبال ،
قائد اعظم، لیاقت علی خان اور بہت سے
لوگوں بلکہ رہنماؤں (کہ وہ لوگ نہیں تھے)
تک کے حالات زندگی پڑھ ڈالے مگر اپنے بارے مجال ہے جو چار الفاظ بھی ملے
ہوں یا کہیں ذکر ہوا ہو۔
پھر تاریخ پاکستان
کا مطالعہ ہوا، کیا پہلے افراتفری
کے سال، پھر ایوب خان کی ترقی اور بحالی کے سال۔
اپنا اس میں کوئی کردار نہ تھا، نہ کسی نے لکھا ، کوئی حوالہ نہیں ہے۔ ہاں
سنہ اکہتر بہتر کی افراتفری میں ایک اندراج اپنے نام کا یونین کونسل کے رجسٹر
پیدائش میں درج پایا گیا۔ اس میں اپنا کوئی عمل دخل نہ تھا، کہاں پیدا ہوئے، نام
کس نے رکھا، کیا رکھا، کیوں رکھا، سب کسی
اور نے طے کیا اور ہم آموجود ہوئے، پھر گاؤں کے اسکول میں داخل کروایا گیا۔ جن
اساتذہ کے پاس پڑھا، جو کلاس فیلو تھے، یہ
بھی اپنا فیصلہ نہ تھا۔
دنیا کی کچھ سمجھ آنے لگی کالج میں داخل ہوئے، اچھا ۔ تیرے لئے اس کالج کے فارم جمع کروا آیا ہوں،
یہ رسید ہے، فلاں تاریخ کو داخلہ کی فہرست لگے گی۔ جاکر اپنا نام کلاس سیکشن دیکھ
آنا، یہ بھائی جان کا فرمان تھا۔ اور میں اچھا جی کہہ کر رہ گیا۔
چل ہومیوپیتھی پڑھ لے، سنا ہے کہ بہت اچھا طریقہ علاج
ہےاور کہ ادھر پڑھنا کم پڑھتا ہے اور نقل
بہت لگتی ہے، بس بندہ پاس ہوجاتا ہے۔ تو بھی ڈاکٹر بن جائے گا۔ سستے میں۔ چل ٹھیک
ہے، ورنہ تیرے پاس ہونے کے چانس کم ہیں،
میں اچھا جی ٹھیک ہے۔
پہلا سال اسی پر رہے، مرمرا کر پاس ہوئے۔ اگر سالوں میں
محنت کرنے کی جانے کیوں عادت سی ہوگئی۔ اور ہم پوزیشنیں لینے والوں میں سے ہوگئے، اس میں اپنا کوئی
کمال نہیں تھا، مجبوری تھی۔ کسی نے کہہ دیا کہ پڑھا کرو۔ ہم پڑھنا شروع ہوگئے۔ تعلیم
ختم کی تو اسی سال ایک لیکچرار کی سیٹ خالی ہوئی، اس پر درخواست دے دی۔ تعیناتی ہوگئی۔ کیسے ہوئی
اپنا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔
پھر ایک کانفرنس کے بارے معلومات ملیں جو پولینڈ ہورہی تھی۔
ویزہ اپلائی کیا ، اگلوں نے انکار کردیا، اسکے کچھ دن بعد ہونے والی کانفرنس کا
ویزہ لیکر ادھر جاپہنچے، رات کا ٹرانزٹ
لنڈ ن کا رہا ، ماموں شاہد نے بہت شور کیا کہ ادھر ہی رہ جا، کنجرا، تیری کوئی ازیل وغیرہ ہوجائے گی، تیرا ویاہ کروا
دیا ں گا۔ نہیں۔ اٹلی آگئے، ادھر آکر
پیسے کمانے میں لگ گئے، نوکریاں کیا کیا
کیں اور کیوں کیں، ان میں اپنا کوئی عمل دخل نہیں، جو پوسٹ کسی نے بتادی میں نے
اپلائی کردیا۔ جس نے بلا لیا وہ کام شروع کردیا۔ سفر، ادھر جا ادھر جا۔ کام
کے چکر میں برازیل تک گھوم آئے۔
ایک بزنس کرنے کی ناکام کوشش کی، چار سال بعد نتیجہ۔ صحت کی
خرابی چلنے پھر نے سے معذور ، بستر پر۔ بس کاروبار بھی ٹھپ۔
پھر اللہ نے صحت واپس کی، اور دوستوں کی راہنمائی سے پولے پولے ہومیوپیتھک
معالجات میں آگئے، تین سال بہت مزے سے گزرے۔ مگر اس میں بھی اپنی کوئی قابلیت نہ
تھی۔ بس سبب بنتے رہے۔
پڑھتے، پڑھاتے، یہ فیس بک ، یہ بلاگ۔ یہ دوست احباب، یہ
ملاقاتیں ۔ یہ سب چلتا ہی رہا اور ہم پھر سے کمر کی سرجری کروا کر بستر پر،
آج ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا، اس کمرے میں اور اس بستر پر، اور میں صبح سے سوچ رہا کہ
ساری دنیا کا نظام تو پھر بھی چل رہا۔ میرے ہونے نہ ہونے سے تو کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی پڑنے والا۔
تو پھر میں کیا ہوں؟؟؟
شاید کچھ بھی نہیں۔
اس دنیا کے اندر میرا کیا کردار ہے؟؟؟ کچھ بھی نہیں۔
تو پھر؟؟؟؟
راجہ جی بہت اعلیٰ ۔۔۔ کم لکھتے ہیں مگر کمال لکھتے ہیں
جواب دیںحذف کریںاصل میں بندہ جب اکیلا ہوتا ہے تو سوچیں بہت آتی ہیں اور زندگی کی خجل خواریاں ذہن میں پھرکی کی طرح گھومتی ہیں۔
بھرا جی جب ایسا ہو تو مطالعہ شروع کردو اور اللہ اللہ کریا کرو
بس جناب، اکیلے پن میں ہی بندہ سوچ سکتا ہے، ورنہ تو دوسروں کی سنتے یا اپنی سناتے رہتے ہیں، ایسے میں سوچنا تو بس ناممکن ہی ہے
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالی آپ کو صحت عطا فرمائے۔
جواب دیںحذف کریںکہانی تو سب کی ایک جیسی ہی ہے۔۔ کچھ زیادہ خوش کن اور زیادہ دکھ کن
میں نہ تھا تو کون میری عمر جی کر مر گیا
جواب دیںحذف کریںمجھ میں رہ کر مجھ سے تھا جو بے خبر پھر کون تھا؟
(عاطف مرزا)
اس میں اپنا کوئی کمال نہیں تھا، مجبوری تھی۔ کسی نے کہہ دیا کہ پڑھا کرو۔ ہم پڑھنا شروع ہوگئے۔ :)
جواب دیںحذف کریںڈُبویا مجھ کو ہونے نے --- نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ؟
جواب دیںحذف کریں