ایک
فون کال
اور
بھاگتا ہوا کوئی گیا
بن
کے ہوا
مسئلہ
حل ہوا
خدا
کا شکر ادا کیا
پھر
خدا حافظ کہا
پھر
ملیں گے کا وعدہ
جب
فراغت ہوگی
فون
پر بات ہوگی
اچھا
تفصلی ملاقات ہوگی
پھر
کئی دن گزر گئے
موسم
بدل گئے
نہ
کوئی فون نہ سلام
نہ
کوئی ای میل نہ پیغام
میں
نے سوچا
کیا
ہوا
میں
ہی فون کرتا ہوں
احوال
پوچھتا ہوں
فون
کی گھنٹی بجی
اور
بجتی ہی رہی
جواب
ندارد
پھر
نمبر ملایا
چوتھی
بیل پر اٹھایا
جی
کڑا کر بولے
بہت
بزی ہوں
اور اوپر سے تم بار بار
فون کرکے تنگ کررہےہو
میں کہا تو تھا کہ پھر کبھی بات ہوگی
اور اوپر سے تم بار بار
فون کرکے تنگ کررہےہو
میں کہا تو تھا کہ پھر کبھی بات ہوگی
فراغت
کے ساتھ
تفصیلی
ملاقات ہوگی
یہ نہ پوچھا کہ خیریت تو ہے
کسی کام سے تو یاد نہیں کیا
سوکھے منہ بھی نہیں
یہ ایک آزاد نظم ہے، شاید بہت ہی آزاد ہے، کچھ زیادہ ہی، مگ یہ نظم خود ہی سے لکھتی چلی گئی، گویا ایک نظم نہیں بلکہ ایک واردات ہے ، روز مرہ کی واردات، یہاں یورپ میں رہتے رہتے اب تو ان رویوں سے دل بھی دکھنا بس کرگیا ہے۔
مگر کبھی کبھی پھر ایک احساس سا جاگ اٹھتا ہے
یہ نہ پوچھا کہ خیریت تو ہے
کسی کام سے تو یاد نہیں کیا
سوکھے منہ بھی نہیں
یہ ایک آزاد نظم ہے، شاید بہت ہی آزاد ہے، کچھ زیادہ ہی، مگ یہ نظم خود ہی سے لکھتی چلی گئی، گویا ایک نظم نہیں بلکہ ایک واردات ہے ، روز مرہ کی واردات، یہاں یورپ میں رہتے رہتے اب تو ان رویوں سے دل بھی دکھنا بس کرگیا ہے۔
مگر کبھی کبھی پھر ایک احساس سا جاگ اٹھتا ہے
بچھڑ کر خط بھی نہ لکھے اداس یاروں نے۔۔
جواب دیںحذف کریںکبھی کبھی کی ادھوری ملاقات سے بھی گئے
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی تحریر ۔۔۔! اچھی نثری نظم ہے۔
ہمارے رویے بڑے عجیب ہی ہو گئے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںکسی سے کسی بھی قسم کی امیدیں رکھنا گناہ کبیرہ ھے۔
اور کسی کی ناراضگی پر ناراض ھونا اس سے بھی بڑا گناہ کبیرہ ھے۔
بندیا۔ دنیا میں خوش باش رہنا ھے تو گوند بن جا۔ کہ اتارے نہ اترے۔ ٹینس بال بننے والے بس ھر ٹھوکر پر تڑپتے تڑپتے بہت دور جا گرتے ھیں۔
سوکھے منہ بھی نہیں
جواب دیںحذف کریں