لالہ ہم لوگ
پٹھانوں کو کہتے ہیں، پنجابی میں بڑے بھائی کو بھی کہا جاتا ہے، آجکل لالہ کے
بجائے ملالہ ملالہ ہوئی پھری ہے، یہ ایک
سولہ برس کی چھوٹی بچی ہے جس کو
پاکستان میں پسماندگی کے سمبل کے طور پر
استعمالا جارہا ہے، مجھے ملالہ کے بارے علم نہیں ہے۔ زیادہ
سوات کے بارے بھی نہیں کہ ایک بار ہی جانا
ہوا، تب وہاں روای چین لکھتا تھا اور بڑے مزے سے
اپنی فیملی کے ساتھ بھی ادھر لالوں کی
مہمان نوازی اور گرمیوں میں دریاءے سوات کے ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہوسکتے
تھے۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کوئی 1995 کے اردگرد کا ذکر ہے، جولوگ اس
کے بعد بھی ادھر کو ہولئے وہ میرے گواہ ہیں کہ مزے کی جگہ ہے۔
پھر افغانستان پر
امریکی حملہ اور اسکے فوراُ بعد پاکستانی
طالبان کا قیام ، بس سب کچھ تبدیل ، یہ
پاکستانی طالبان ایک سوالیہ نشان ہیں،
دھماکہ یہ مسجد میں کرتے ہیں،
جنازہ و مزار کو تو بلکل بھی نہیں
بخشتے، اسکول ہو ، کہ بازار، ہسپتال یا پھر پولیس اسٹیشن ، پار کرجاتے ہیں اڑا کے رکھ دیتے ہیں، نہیں
چھیڑا انہوں نے تو کسی چرچ کو نہیں چھیڑا،
بھئی مذہبی رواداری بھی کوئی چیز ہے، عام
آدمی جو بازار میں خریداری کررہے ہوں ،
مزدور جو اپنی روزی کے چکر میں ہوں، ان سے
نہیں بچ سکتے، مگر بہت حیرت کی بات ہے انہوں نے آج تک کسی جواء خانہ، کسی کلب، کسی فیشن شو یا پھر کسی لچر ٹی وی چینل کو کبھی نہیں چھیڑا۔
شکل انکی شدید اسلامی ہے، یہ دھاڑی،
یہ پگڑی ، نام امارت اسلامیہ افغانستان والے طالبان
کا، نام سے پہلے ملا ضرور لکھنا اور
کام سارے اسلام کی بنیادی تعلیمات کے
خلاف، اسکول بند، نمازی نماز نہیں پڑھ
سکتے، دھماکہ جنازہ میں، بندہ پوچھے وہ
کونسے مذہبی ہیں جو اپنی ہی عبادت گاہ کے دوالے
ہورہے، اسی کو ہی تباہ کرنے پر تلے
ہوءۓ۔
اب تو کہا جاسکتا ہے انکا کام صرف دہشت پھیلانا ہے اور کچھ نہیں، بندہ پوچھے کہ اس سے وہ حاصل کرنا کیا چاہتے
تھے؟؟؟ انکا مقصد کیا تھا اس فساد فی
لارض سے ؟؟؟ مستفید کون ہوا اس کاؤس
سے؟؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہر بندہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا اسے بتلانے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان کا یہ لالوں کا علاقہ سوات ، گزرشتہ کئی دہائیوں
سے مشکلات کا شکارہے، روس کے افغانستان پر حملہ کے نتیجہ میں آنے
والی امیگریشن کا رخ اس طرف ہونے کی وجہ انکی معاشرت و زبان کا ایک ہونا تھا۔ جغرافیائی طور پر پہاڑوں اور دشوارگزار، وادیوں
پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ،موسم کی شدت اور برفباری و سردی کا طویل
سلسلہ، اس علاقے کی ترقی میں ایک بڑی
رکاوٹ رہا۔ انگریز کے وقت سے اسکی حثیت
ایک غیرمستقل حیثیت ہونے کی وجہ سے، وہاں ترقیاتی کام خاطر خواہ نہ ہوپایا، مشرف صاحب اور ذرداری حکومتیں بھی اپنی امریکہ
تولیہ پالیسی کی وجہ سے ادھر توجہ دینے سے
کنارہ کشی کرتی رہیں۔
ایسے میں ملالہ ظہور پزیر ہوئی، ایسے وقت میں جب فوج نے ادھر کنٹرول سنبھال لیا
اور اسکول کھل گئے، لڑکیا ں لڑکے سب اسکول کو جانے کے قابل ہوگئے، طالبان کو قابو کرلیا گیا، روز
خبریں آرہی ہیں کہ ادھرآج میلہ لگا ہوا ہے، آج کرکٹ کا ٹورنمنٹ ہورہا، مگر ملالہ جی کے بیانات سے لگتا ہے کہ ادھر بس
برے حالات ہیں اور 8 برس پہلے جو اسکول جلاءے جاتے تھے اب بھی وہی ہے۔ ملالہ کے بیانات سے زیادہ ڈر اسکو دئے جانے والے پروٹوکول سے لگ رہا،
کبھی تو وہ اوباہامہ کی چہیتی ہوتی
ہے، اسکی سولویں سالگرہ کا اقوام متحدہ میں منا یا جانا بھی ایک سوالیہ نشان ہے، سوال یہ نہیں
ہے کہ ملالہ کا جنم دن کیوں منایا گیا؟
سوال یہ ہے کہ ملالہ علاوہ دیگر
پاکستانی بیٹیوں کو بھی تو گولیاں لگیں، ان پر تو بھی تو ستم ہوءے، کشمیر
میں کتنی ملالاؤں پر کیا نہیں بیتا، کتنی ملالاءں اور اس کی عمر کی لڑکیا ں امریکن
ڈرونز کا شکار ہوئیں اور ماری گئیں، بغیر جانے کہ انکا قصور کیا تھا، فلسطین میں
کیا ملالائیں موجود نہیں، کیا وہ
کچھ نہیں لکھ سکتیں، کیا وہاں کوئی
بی بی سی کا نمائندہ نہیں جو فلسطین کی ملالہ کے بلاگ کی نوک پلک سنوارے؟؟ اقوام
متحدہ کا ان معصوم ملالاؤں کے بارے کیا خیال ہے جو گزشتہ 70 دہائیوں سے پس
رہیں ظلم کی چکی میں؟؟؟؟
آگے کیا ہوگا؟؟؟ وقت
کا قاضی فیصلہ سنائے گا وقت آنے پر ہی ، مگراب تک کی تاریخ تو یہی ہے کہ مغرب نے یہ چوتھی عالمی
جنگ اپنے میڈیا سے لڑی اور لڑرہے، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ انہوں نے ہی
کیا، گیارہ ستمبر سے اسامہ بن لادن تک، صدام حسین عراق کے جراثیمی ہتھیار اور تیل پر
قبضہ، لیبیا پر حملہ اور مصری حکومت کا تختہ الٹنا،
ایران اور پھر سوریا کی شورش، پاکستان میں مولبی قادری کی شورش اور
نظام کو سبوتاژ کرنے کا پروغرام ، اور اب ملالہ کی پروجیکشن دیکھو ،
اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ مجھے تو
یہ سب عالمی بدمعاشوں کی ایک اور چال لگ رہی،
ہمارا میڈیا تو انکی بولی بول رہا، ادھر سوشل میڈیا پر بھی، یورپی لوگ پاغل ہوئے بیٹھے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں
جو اٹالین ٹی وی دیکھتے ہیں اور برلسکونی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اب ملالہ ملالہ کرتے پھر رہے ہیں، جیو نیوز
بتلا رہا کہ کسی بینڈ نے آئی ایم ملالہ بھی گادیا۔ ہور دسو، ڈرون حملوں میں مرنے والی ملالوں کا شاید حساب دینے کی بجاءے اس پر پردہ ڈالنے کی ایک بھونڈی کوشش
اچھا جی! تُسی وی شدت پسند، کنویں کے ڈھڈو؟
جواب دیںحذف کریںنہیں جی! قسمیں میرے الفاظ نہیں ہیں، ان کے ہیں جو ملالہ ملالہ کرتے ہیں، جتنی مرضی لاجک، منطق، دلیل دے لو۔ لیکن ملالہ ملالہ ہے جی
جناب ہمارا سوال ملالہ نہیں ہے باقی کی ملالائیں ہیں ان کے بار کیوں نہیں بول رہے؟؟؟ اور صرف اسی کے بارے میں کیوں بول رہے، اسی کو کس کیس میں توا لگایا جارہا
جواب دیںحذف کریںجو کہا حق کہا اور جو لکھا سچ لکھا ہے۔
جواب دیںحذف کریںملالہ میڈیا تے مک مکا
جواب دیںحذف کریںرہے نام اللہ کا
ڈاکٹر صاحب آپ کی باتوں سے اتفاق ہے۔ سوات جب تک ایک ریاست رہا، ہمیشہ ترقی کرتا رہا، بادشاہ صاحب سوات اور والئ سوات جناب عبدالحق جہانزیب صاحب کی بصیرت اور مستقبل شناسی نے سوات کو بہت ترقی یافتہ بنایا مگر 1969میں پاکستان میں ضم ہونے کے بعد حالت دگرگوں ہوگئی۔ رہی بات ملالہ کی تو اُس پر آپ اور بہت سارے لکھنے والے لکھ رہے ہیں اور حقیقت سب کی تحاریر سے واضح ہے۔ سوات کل بھی خوبصورت جگہ تھی، آج بھی ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ پر امن ہے، لاکھوں لوگ سیر وسیاحت کے لئے آتے ہیں۔ آپ لوگوں کے لئے ہمارے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ یہ آپ کا ملک ہے ہمارا ملک ہے۔
جواب دیںحذف کریںYes, i'm agree with u! Malala, it's only a Drama! Pakistanio ur muslim dunia ko badnam karne ka ek behtreen tariqa he!
جواب دیںحذف کریںIs se uno ne yeh sabat kia he ke, amrican jangeen bilkul theek hein!
ملالہ پر بزدلانہ حملے نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ طالبان کو اصل خوف فوج سے نہیں بلکہ تعلیم یافتہ خواتین سے ہے۔ ہم یقیناً دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں ایک نوجوان لڑکی تعلیم کی بات کرے تو اسے بھی ایک عالمی سازش سمجھا جاتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںساری دنیا میں ملالہ کی بہادری کی تعریف کی جا رہی ہے لیکن اسکے ہم وطن اسے ڈرامہ کہنے اور ثابت کرنے میں مصروف ہیں. اردو اخبارات کے کالم نویسوں اور پاکستانی اینکروں سے تو خیر کی توقع ہی نہیں اور وہ تو سازشی بکواس کرتے ہی رہیں گے، پڑھے لکھے لوگوں کے خیالات سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
ملالہ کا ذکر آتے ہی ایسے لوگ دماغی ہیضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کبھی ڈرون تو کبھی کوئی اور دکھڑا کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ارے ایسے پڑھے لکھوں سے تو جاہل ہزار گنا بہتر ہیں! یہ ہے پاکستان کا روشن مستقبل! ایک نہتی لڑکی نے ہزاروں نظریاتی منافقوں کا پول کھول دیا۔
شاباش ملالہ! جگ جگ جیو! بھول کر بھی کبھی واپسی کا نہ سوچنا کہ ہم لوگ ابھی اس قابل نہیں ہوئے اور شائد کبھی ہوں گے بھی نہیں۔
http://urdu.dawn.com/2013/07/13/darte-hain-bandooqon-waale-am-abid-aq/
گمنام صاحب،
جواب دیںحذف کریںملالہ ہو کہ مختاراں مائی یا کچھ اور مگر سوال یہ ہے کہ یہ پزیراءی صرف اس ملالہ کو ہی کیوں، اس نے ایسا کیا کردیا، اس سے زیادہ برے حالات میں اور بچیاں بچے بھی تو اسکول جاتے رہے اور جارہے، ہم خود جاتے رہے ہیں،
ملالہ کی تقریر کسی نے سنی، پوری ڈکٹیشن تھی، کسی پرانے بیوروکریٹ کی ، سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو پاکستان سے ہمدردی کب سے ہوگئی، اور ہوگءی تو کیوں؟؟ ہم ایک ذخم خردہ قوم ہیں ہر تھپکی ہمیں محتاط رہنے پر مجبور کردیتی ہے
نعم اللہ خانصاحب، سوات بھی پاکستان کے ہی حصہ ہے اب اس کی بدقسمتی کہ یہ افغانستان سے بھی نزدیک ہے اور دشوار گزار بھی، تو جو بدحالی مجموءی طور پر ہمارے ملک میں پاءی جاتی ہے، ادھر گزشتہ دو دھاءیوں میں جو تنزلی ہوئِ پاکستان کی اس کے سوات پر اثرات کچھ زیادہ ہی تھے، مگر الحمدللہ کافی بہتری آءی،
جواب دیںحذف کریںآپ کی مہمانداری سے کبھی قدرت نے موقع دیا تو ضرور حظ اٹھایا جاوے گا
http://umairmalik.com/2013/07/lala-land/
جواب دیںحذف کریںآخر میں نے بھی اپنی سوچ کو الفاظ دے دیئے۔ لیکن میری سوچ آپ کی طرح مجتمع نہیں بلکہ بکھری ہوئی ہے۔ میں کل بھی ایک کنفیوژن کا شکار تھا اور آج بھی ہوں!
کنفیوزن آپ کو لگ رہا ہے حالانکہ آپ کی سوچ واضع ہے، کہ ملالہ کی پروجیکشن ایک سوالیہ نشان ہے، کہ طالبان کو کوس کر اب کیا نکالنا چاہ رہے وہ پاکستان سے، ملالہ ایک مہرہ ہے معصوم بھی، اسکی پروجیکشن اور طالبان کو اسلام اورمسلمانوں سے منسلک کرنا ایک سوال ہے؟؟ کہ اس کے یچھے جو بھیانک عزاءم نظر آرہے ان سے خوف آتا ہے، خیر
جواب دیںحذف کریںمکراللہ، وللہ خیر الماکرین
آپ طالبان کو کوسنے پر کیوں برا منا رہے اور کس نے کہا کہ ملالہ کے ذریعے طالبان کو اسلام سے جوڑا جا رہا۔ یہ تو آلریڈی دنیا میں ایک فیکٹ سمجھا جاتا ہے کہ طالبان اسلامی شریعت کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں۔ میں افغان طالبان کا کہہ رہا ہوں۔ جہاں تک پاکستانی طالبان جو کہ سوات میں سرگرم رہے، وہ بھی بظاہر تو یہی پیغام دیتے رہے کہ یہاں اسلامی شریعت کا نفاذ کیا جائے گا۔ اور ساتھ میں لوگوں کو اور مساجد و مدرسوں کو نشانہ بھی بناتے رہے۔ اب یا تو یہ کہہ دیں کہ پاکستانی طالبان دراصل سرے سے ہیں ہی نہیں کہ بہت سے لوگ اس پہ بھی یقین رکھتے ہیں۔ یا پھر یہ مان لیں کہ وہ خود کو پہلے سے ہی اسلام کے ساتھ جوڑ چکے ہیں۔ ملالہ کے ذریعے مغرب جو بھی پروجیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اللہ جانتا ہے، اور بے شک وہی بہتر جاننے والا ہے اور تدبیر کرنے والا ہے۔
جواب دیںحذف کریںکچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار راقم نے بھی کیا تھا، اور عجیب سی بات ہے کہ جو شخص بھی ملالہ کے بارے میں پھیلائے گئے اس تاثر پر ذرا بھی تنقید کرتا ہے اس پر فورا طالبان کا حامی ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںلو جی، طالبان تو تنگ نظر تھے، ہیں اور رہیں گے۔ وہ شدت پسند ہیں، رواداری کے قائل نہیں اور کسی قسم کے اختلافی نکتہ نظر کو سننے یا پڑھنے کے موڈ میں ہی نہیں ہیں۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا جو مذہبی رواداری، سیکولرزم اور روشن خیالی کا پرچار کرتے ہیں۔ ملالہ پر تنقید پڑھتے ہی ان کا پارہ پتہ نہیں کیوں آسمان کو چڑ ھ جاتا ہے۔
میری تحاریر کے ربط یہ ہیں۔
1: http://inspire.org.pk/blog/%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%84%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%84/
2: http://inspire.org.pk/blog/letter-to-shazia-and-kainat/
لو جی میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ ہمیشہ پروجیکشن وہیں ہوتی ہے جہاں پوٹینشل موجود ہو. ہماری کوتاہیوں کے تعاون سے ایک گیپ بن گیا تھا جسکو اب اس قسم کی پروجیکشنز کی مدد سے بھرا جا رہا ہے.ملالہ صحیح ہے یا غلط اس بات کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کیونکہ اپنی موٹی اور کنفیوژ عقل کاسے جوگی نہیں اس بارے. لیکن دکھ یہ ہے کہ ہم نے ہمارے طرف سے کاؤنٹر نریٹو تیار ہی نہیں کیا. ہم نے سوات میں امن آ جانے کے بعد ہم نے وہاں آنے والی مثبت تبدیلیوں کا سنجیدگی سے کب پرچار کیا؟
جواب دیںحذف کریںاس حوالے سے میڈیا کا ایک ملمولی سا طالبعلم ہوتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ پرائیوٹ براڈ کاسٹر سے اسکی امید نہیں کی جا سکتی کیونکہ اسکا دھندہ اور پیٹ انوالو ہے. یہ کام پبلک براڈکاسٹر کا ہوتا ہے جو کہ الحمداللہ اپنے ہاں لک بن کے وزیراعظم ہاؤس کے ساتھ وفاداری نبھا رہا ہے بس.
رہی رائے عامہ کی بات وہ ایک پولی مج ہوتی ہے جدھر کا چارہ زیادہ ہرا ہوا ادھر کی ہو گئی.
راءے صاحب پبلک ہے یہ پبلک ہے، سب جانتا ہے یہ پبلک ہے، آپ کی بات سے پورا اتفاق ہے کہ اندر کی کوتاہیاں ہیں، اور انکی نشاندھی کرنے کو ہم ادھر کھپ رے ہین، جب تک ان لیکنس یا کمزوریوں کی نشاندھی نہ ہوگی انکی تشخیص نہ ہوگی، انکا علاج کرنا ممکن نہیں، شکر ہے آپ لوگوں نے ماننا تو شروع کیا۔ اللہ کرے اب علاج کی طرف بھی کوءی توجہ دے
جواب دیںحذف کریںحرف بہ حرف آپ کی بات سے متفق ۔
جواب دیںحذف کریں