ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ, ستمبر 21, 2011

مقدمہ بخلاف مچھراں


میں گزشتہ تین دن بلکہ یوں کہئے تین راتوں سے پاکستان سے آٹھ ہزار میل دور بھی پاکستانی عوام کے ساتھ کھجل ہورہا ہوں
ساتھ یوں کہ وجہ اس کھجل خانی کی جو اس آج کی وجہ تحریر بھی ہے۔ ایک ہی ہے اور وہ ہے مچھر ۔ جی بلکل جسکے بارے میں کہا گیا کہ ایک مچھر بندے کی رات حرام کرسکتا ہے تو سہی کہا گیا۔ مطلب گزشتہ تین آیام بلکہ اشباب  جو کہ شب کی جمع ہے میں ہم ان مچھرون کی واجہ سے شب بیدار بوم بنے رہے اور پھر دن بھر سوتے پڑے رہتے۔ 

چونکہ یہ قضیہ ہمارے ساتھ کم ہی پیش آیا  ہے لہذا مانند الودفتر میں اونگنے رہتے اور یہ بھی کہ ہم سے جو بھی سوال کیا جاتا اول تو سمجھ ہی نہ آتا اور اگر سوال اتنا آسان ہوتا کہ دماغ شریف میں خوامخواہ گھس جاتا تو اس کا جواب ندارد۔ گویا سچ مچ کے الو۔۔آج پھر تب کر چھٹی کرتے ہیں پاس کی سپر مارکیٹ میں گھس کر فوراُ سے پیشتر مچھروں کے خلاف کسی اچھے سے اور مؤثر ہتھیار کے بارے میں اندر گھومتی ہوئی اسٹاف سے پوچھ ڈالا یہ ایک اور ثبوت تھا کہ ہم واقعی بوم ہوچکے ہیں۔ ورنہ ادھر پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی بس متلقہ شعبہ میں جاؤ اور مطلوبہ چیز پکڑ لو۔ خیر اس سے ایک بات اور بھی ثابت ہوئی کہ ہم واقعی مچھرون سے تپے ہوئے تھے کہ ان کے خلاف باقاعدہ سفارش کردہ ہتھار سے لیس ہونے کے چکر میں تھے۔

ادھر پاکستان میں ہمارے بھائی بندوں کو کچھل کررہے ہیں اور ہم کہ اتنی دور آڈیرہ ڈالے ہیں اور آتوائی کھٹوائی لئے پڑے ہیں ہماری بی جان کو آرہے ہیں کوئی اس سے پوچھے کہ میاں پاکستان میں جو چالیس کروڑ بندے چھوڑ آئے ہیں وہ کوئی کم ہیں کہ تم ادھر بھی ہمارے پیچھے لپکے چلے آرہے ہو۔

ویسے یہ مچھر ہے بہت ڈھیٹ قسم کی چیز شاید ہم بنی انسان کا خون چوس چوس کہ اس کی چول خانی بھی ہمارے جیسی ہوگئی ہے۔ کہ اس کا پیٹ بھرتا ہے   ہی نہیں۔ کل رات کو میں نے بارہ بجے سے لیکر صبح چھ بجے تک پہرہ دے کر چھ مچھر مارے اور قسم سے سب وہ تھے جو ہمارا خون چوس چوس کر اپنا پیٹ اتنا بھر  چکے تھے کہ ان سے اڑا تک نہ جاتا تھا۔ بس فیر ان کی جان ہمارے ہاتھ کے نیچے اور ایک پھانڈے سے انکا رام نام ستے۔

ویسے میں سوچ رہا تھا نہیں ابھی سوچ رہا ہوں کہ بزرگ سچ ہی کہہ گئے تھے کہ پیٹ بھر کر نہیں کھانا چاہئے   ویسے مجھے اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہئے کہ یہ بات مجھروں کو انکے بزرگ بھی نہیں بتاگئے ورنہ وہ کل والے چھ آج بھی ہوتے۔

نتیجہ  پس تجربہ سے ثابت ہوا کہ پیٹ بھر کر کھانے سے بندے کی جان بھی جا سکتی ہے

6 تبصرے:

  1. یعنی کہ اٹلی میں بھی مچھر ہوتے ہیں اور وہ بھی یہاں والوں کی طرح خون ہی چوستے ہیں۔۔۔ عجیب بات ہے۔ سنا ہے وہاں تو اتنا کچھ ملتا ہے۔۔۔!۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اب مچھر خون نہ چوسیں تو کیا کریں ،کولڈ ڈرنک پی لیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بلکل جی ادھر بھی مجھر ہوتے ہیں اور لہو بھی چوستے ہیں بلکہ لہو ہی چوستے ہیں اور اپنا جسم گرم رکھتے ہیں، اس کام کےلئے اور بھی ماکولات موجود ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت خوب جناب! گمان ہے کہ مچھروں‌کو ان دیگر ماکولات کی خبر نہیں ورنہ یہی کہتے پھرتے کہ زاہد لہو پینے دے پیسا کے سامنے

    جواب دیںحذف کریں
  5. کس شہر میں ہین ڈاکٹر صاحب؟

    جواب دیںحذف کریں
  6. عدنان بلکل ایسے ہی ورنہ میری جان کیوں کھاتے پھر رہے ہوتے اور نہ ہی اپنی موت کو دعوت دیتے۔

    غائیب صاحب آپ پہلے حاضر ہوں پھر آپ کے سوال کا جواب دیاجائے گا۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں